میرے حلقے میں الیکشن ہو چکا‘ بار بار
کروانے کی ضرورت نہیں: سعد رفیق
وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ ''میرے حلقے میں الیکشن ہو چکا‘ بار بار کروانے کی ضرورت نہیں‘‘ یعنی اگر بطور وفاقی وزیر میں اسی طرح موجیں کر رہا ہوں تو دوبارہ کروانے سے کیا فرق پڑ جائے گا جبکہ سٹے آرڈر میں التواء حسب سابق ملتے رہیں گے اور باقی کے اڑھائی سال بھی آنکھ جھپکتے گزر جائیں گے کیونکہ اب تو عدلیہ میں بھی خوشگوار تبدیلی آنے والی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''دھرنا سیاست نے پاکستان کو مشکلات کے سوا کچھ نہیں دیا‘‘ اور اگر پیپلزپارٹی اور دیگر جماعتیں آڑے نہ آتیں تو یوں سمجھیے کہ ہمارا بولو رام بس ہو ہی گیا تھا اور ظاہر ہے کہ ہماری مشکلات دراصل پاکستان ہی کی مشکلات ہیں جن میں اضافہ کرنے کے لیے ایک بار پھر دھرنے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں حالانکہ ہمارا بندوبست ویسے بھی بہت جلد ہونے والا ہے اور نوشتہ دیوار صاف نظر آ رہا ہے جو کافی آسان اور عام فہم زبان میں لکھا ہوا ہے اور سمجھ میں بھی آ رہا ہے۔ اس لیے کسی کو دھرنے وغیرہ جیسے تکلف میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے اور کیفیت یہ ہے کہ ع
تاڑی مار اُڈا نہ باہو اسیں آپے ای اُڈن ہارے ہو
آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے بات چیت کر رہے تھے۔
حکومت متحدہ مذاکرات آگے نہ
بڑھنے کی سمجھ نہیں آئی: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''حکومت متحدہ مذاکرات آگے نہ بڑھنے کی سمجھ نہیں آئی‘‘ اور اتفاق سے یہ پہلی بات ہے کہ جو میری سمجھ میں نہیں آئی اور جب جب حکومت کے ساتھ میرے مذاکرات ہوتے تھے تو حکومت کو میری اور مجھے حکومت کی ہر بات خوب سمجھ میں آ جاتی تھی بلکہ حکومت خاطر خدمت کا انتظام پہلے سے ہی کر رکھتی تھی کیونکہ وہ خاکسار کے مسائل اور ضروریات سے بخوبی آگاہ رہتی ہے اور اگر کوئی کسر رہ جاتی تو میں خود نکال دیا کرتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ''دھرنے کی ہوا نکل چکی ہے‘‘ جو اب اس ہیچ مدان کے سر کو چڑھ چکی ہے اور ہر وقت چکر سے آتے رہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''مذاکرات کے لیے میں ہی متحدہ کو میز پر لایا تھا‘‘ اور ایسا لگتا ہے کہ فریقین کرسیوں کی بجائے میز پر ہی چڑھ بیٹھے تھے‘ نیز متحدہ والوں کو شک تھا کہ اس میں خاکسار نے کسی نہ کسی طور اپنا لُچ بھی تل لیا ہے اور ان کا لُچ بیچ میں ہی رہا جا رہا ہے حالانکہ میرا لُچ ہر وقت ویسے ہی کڑاہے کے اندر ہی رہتا ہے‘ آپ اگلے روز پشاور میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
تفصیلات طلب
ایک اخبار کی اطلاع کے مطابق وزیراعظم نے ارکان کابینہ کے اثاثہ جات کی تفصیلات طلب کرلی ہیں۔ پچھلے سال بھی بڑے زوروشور سے کابینہ کی کارکردگی کا جائزہ لینے کا کام شروع کیا گیا تھا جس کے نتیجے میں بعض وزراء کی چھٹی اور بعض کے قلمدان تبدیل ہونے والے تھے لیکن کچھ بھی نہ ہوا اور سارے کے سارے وزراء اسی طرح موجیں مان رہے ہیں‘ چنانچہ لگتا ہے کہ یہ اقدام بھی گونگلوئوں پر سے مٹی جھاڑنے ہی کے مترادف ہوگا اور ظاہر ہے کہ یہ اعلان بھی اس لیے کیا جاتا ہے کہ رینجرز اور دیگر ایجنسیوں کی طرف سے کرپشن کے خلاف مہم کا آغاز کیا گیا ہے ورنہ صاحبِ موصوف کو نہ صرف سب شرکاء کے اثاثہ جات کا بخوبی علم تھا بلکہ اس پر منہ میں گھنگنیاں بھی ڈالے ہوئے تھے‘ حالانکہ سب سے پہلے آنجناب کو اپنے اور جملہ خاندان کے اثاثوں کا حساب کرنا چاہیے تھا اور جہاں تک وزراء کے اثاثوں کا سوال ہے تو اکیلے وزیرخزانہ اور وزیراعظم کے سمدھی جناب اسحاق ڈار کے اندرون و بیرون ملک اثاثوں پر ایک طائرانہ نگاہ ڈال لینا ہی کافی تھا۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔
زبان پھسل گئی؟
آج کل زعمائے حکومت کی زبانیں کچھ ضرورت سے زیادہ ہی پھسلنے لگی ہیں‘ پچھلے دنوں پنجاب کے ایک سینئر وزیر کی زبان پھسلی اور انہوں نے کرپشن کو ہر شعبے میں لازمی قرار دے ڈالا اور اب اپنے شاہ صاحب یعنی وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کی زبان حسب سابق پھسلی ہے اور ایسی پھسلی کہ پہلے اپنے قائد آصف علی زرداری کا نام بھول گئے اور پھر شاید تلافی ٔ مافات کے طورپر انہیں وزیراعظم بنا ڈالا حالانکہ صاحب موصوف کا سابق صدر رہنا بھی اب کافی مخدوش ہوتا نظر آ رہا ہے۔ شاہ صاحب نہ صرف کابینہ کے اجلاس میں سوتے پائے گئے ہیں بلکہ ایک افواہ کے مطابق وہ ایک بار تقریر کرتے ہوئے بھی سو گئے تھے اور یہ تو سب کو معلوم ہے کہ نیند تو سولی پر بھی آ جاتی ہے جبکہ رینجرز اور دیگر سکیورٹی اداروں کی طرف سے کرپشن کے خلاف جو مہم جاری ہے وہ بھی کسی سولی سے کم نہیں ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دراصل ان کی زبان نہ پھسلی ہو بلکہ انہوں نے قوم کو زرداری صاحب کے آئندہ وزیراعظم بننے کی خوشخبری سنائی ہو کہ اس عمر میں آدمی کے ساتھ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔
آج کا مطلع
ہم تو ظفر اک پیکر تسلیم و رضا تھے
ہو جاتے ہو کیوں برسر پیکار اناگت
(بلوچی زبان میں ''اناگت‘‘ کا مطلب اچانک ہے)