"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں‘ متن اور افضال نوید کی غزل

موقع ملا تو تاریخ ہمارے کام یاد رکھے گی: نواز شریف
سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''اگر موقع ملا تو تاریخ ہمارے کام یاد رکھے گی‘‘ اول تو تاریخ کو ہمارے کام پہلے ہی بہت اچھی طرح سے یاد ہیں اور وہ انہیں فرفر سنا بھی سکتی ہے جبکہ ملک تو ان کاموں کو تاابد یاد رکھے گا بلکہ کبھی فراموش کر ہی نہیں سکتا کیونکہ اتنی تیز تر ترقی کسی اور نے کی ہی نہیں اور اتنی تیزی سے تو بالکل نہیں کی جبکہ خاکسار اس خدمت کے لیے ہی ہر بار وزیراعظم بنتا ہے اور اب نئے ریکارڈز قائم کرنے کیلئے حاضر ہوا ہے اور ان سے اپنے آپ کو بھرنے کیلئے تاریخ کو ایک بار پھر تیار رہنا ہوگا‘ یقینا اسے کسی صورت بھی مایوس نہیں کیا جائے گا۔ آپ اگلے روز ننکانہ صاحب میں ایک انتخابی جلسے سے خطاب کر رہے تھے۔
(ن) لیگ نہ پی ٹی آئی‘ حکومت
ہم بنائیں گے: بلاول بھٹو
سابق وزیر خارجہ اور پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''(ن) لیگ نہ پی ٹی آئی‘ حکومت ہم بنائیں گے‘‘ اور جس کیلئے چودھری سرور کی سپورٹ ہی کافی ہے‘ جو چودھری شجاعت حسین کی ہدایت پر ایسا کر رہے ہیں اور یہ ان کی بہت بڑی قربانی ہے‘ جسے ہمیشہ یاد رکھیں گے اور اگر حکومت نہ ملی تو اس کی وجہ بھی وہی ہوں گے، اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ کسی کے کہنے ہی پر ہمارے ساتھ آ ملے ہوں اور الیکشن کو منطقی انجام تک پہنچا کر پھر واپس چلے جائیں۔ آپ اگلے روز سرگودھا، بھلوال اور بھیرہ میں انتخابی جلسوں سے خطاب کر رہے تھے۔
آئی ٹی میں ترقی کیلئے نوجوانوں
پر سرمایہ کاری کرنا ہوگی: شہباز شریف
سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''آئی ٹی کے شعبہ میں ترقی کے لیے نوجوانوں پر سرمایہ کاری کرنا ہو گی‘‘ جس کیلئے نواز شریف کو وزیراعظم بنانا بے حد ضروری ہے کیونکہ وزیراعظم بنتے ہی ساری ترقی ان کے کنٹرول میں آ جائے گی جس میں سے گنجائش نکال کر نوجوانوں پر سرمایہ کاری کی جا سکتی ہے، اگرچہ پہلے تین بار ایسا نہیں کر سکے لیکن امید ہے کہ اب چوتھی بار دوسروں کا بھی کچھ خیال رکھیں گے۔ اس لیے نوجوانوں کو چاہئے کہ کامیابی کیلئے دن رات ایک کر دیں کیونکہ چاہتے ہیں کہ اب اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کے لیے بھی کچھ نہ کچھ کرکے دکھائیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں نوجوانوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
ایسی حکومت ہونی چاہئے جو پانچ
سال پورے کرے: جہانگیر ترین
استحکام پاکستان پارٹی کے پیٹرن انچیف جہانگیر خان ترین نے کہا ہے کہ ''ایسی حکومت ہونی چاہئے جو پانچ سال پورے کرے‘‘ کیونکہ ہم جو (ن) لیگ کے ساتھ مل کر حکومت بنانا چاہ رہے ہیں تو سب سے زیادہ خطرہ ہمیں درپیش ہے اور سب جانتے ہیں کہ نواز شریف کو حسبِ سابق دورانِ اقتدار ہی نکال باہر کیا جاسکتا ہے اور ایسی صورت میں ساتھ ہی اتحادی بھی چلے جائیں گے اس لیے ابھی سے بدمزہ ہونا شروع کردیا ہے کیونکہ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ نہ نواز شریف اپنی ڈگر بدلیں گے نہ انہیں نکالنے والے‘ اس لیے یہ خدشات بالکل جائز ہیں اور انہیں رفع کرنے کیلئے کچھ نہ کچھ ہونا چاہئے اور اس مسئلے کا کوئی نہ کوئی درمیانی حل بہر صورت نکلنا چاہئے۔ آپ اگلے روز لودھراں میں کارکنوں سے خطاب کر رہے تھے۔
پی ٹی آئی کو بڑی جماعت بنایا‘ صفایا
بھی میں ہی کروں گا: پرویز خٹک
سابق وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا اور تحریک انصاف پارلیمنٹرینز کے صدر پرویز خٹک نے کہا ہے کہ '' پی ٹی آئی کو بڑی جماعت میں نے بنایا‘ صفایا بھی میں ہی کروں گا‘‘ چاہے ساتھ ہی اپنی جماعت کا صفایا کیوں نہ ہو جائے۔ ویسے بھی بڑا کام کرنے کے لیے قربانی تو دینی ہی پڑتی ہے اور اس کیلئے پوری طرح سے تیار ہوں اور اس قربانی کو تاریخ کے صفحات میں سنہری حروف میں لکھا جائے گا کیونکہ نام پیدا کرنے کا یہی ایک ذریعہ باقی رہ گیا ہے اور اس کے بعد کچھ بھی کرنے کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔ آپ اگلے روز نوشہرہ میں ایک انتخابی جلسے سے خطاب کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں افضال نوید کی غزل:
ہو گئی دیر کہ پامال کوئی پھرتا ہے
دشت میں کھولے ہوئے بال کوئی پھرتا ہے
کہکشائیں اُسے چنگاریوں میں رکھتی ہیں
ریگِ سیارگاں کھنگال کوئی پھرتا ہے
چاندنی سطحِ سمندر پہ بچھی تھی اک دن
اوڑھ شانوں پہ وہی شال کوئی پھرتا ہے
ٹوٹتی ہے کہیں پائل تو سنبھلتا نہیں وہ
تھام کر مہندی بھرا تھال کوئی پھرتا ہے
ہوش ارواحِ دو عالم کے اڑا کر ہر سُو
لے کے خوشبوئے خد و خال کوئی پھرتا ہے
جائے تعمیر اٹھا دیں نہ سمندر جب تک
پاؤں سے باندھ کے بھونچال کوئی پھرتا ہے
کون بچھڑا تھا کہاں‘ یاد نہیں ہے اُس کو
وقت کی بارشوں کو ٹال کوئی پھرتا ہے
جیسے پُھلواری یہیں سے ابھر آئے گی کوئی
عشق میں زندگی کو گال کوئی پھرتا ہے
اور دنیاؤں کی آواز ابھی آئی نہیں
شہرِ موجود میں تاحال کوئی پھرتا ہے
اب کہیں اور سے سیراب نہیں ہو سکتا
ایک در کا ہوا کنگال کوئی پھرتا ہے
جبرِ آلودگی میں اور نہ گنجائش تھی
پھاڑ کر نامۂ اعمال کوئی پھرتا ہے
بوجھ کس حسرتِ تعمیرِ گزشتہ کا نویدؔ
اپنی آوارگی پر ڈال کوئی پھرتا ہے
آج کا مقطع
یہ میں اپنے عیب جو کر رہا ہوں عیاں ظفرؔ
تو دراصل یہ بھی کوئی ہنر نہیں کر رہا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں