اقتدار ملا تو پہلا حکم سیاسی قیدیوں
کی رہائی کا ہو گا: بلاول بھٹو
سابق وزیر خارجہ اور چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''اقتدار ملا تو سب سے پہلا حکم سیاسی قیدیوں کی رہائی کا ہو گا‘‘ اس لیے پی ٹی آئی اور دیگر سیاسی جماعتوں کے کارکنان اگر اپنے لیڈروں کی رہائی چاہتے ہیں تو ہمیں ووٹ دیں کیونکہ اور کسی بھی طرح ان کی رہائی کا کوئی امکان نظر نہیں آتا، اور یہ جو کہا جا رہا کہ سب سے پہلے نجی جیلوں کے قیدیوں کو رہا کریں گے تو اس سلسلے میں عرض ہے کہ وہ کوئی سیاسی قیدی نہیں بلکہ اپنے اپنے ضمیر کے قیدی ہیں‘ اس لیے انہیں رہا نہیں کیا جا سکتا۔ لہٰذا ضروری ہے کہ سیاسی قیدیوں کے لواحقین بڑھ چڑھ کر ہمیں کامیاب کرائیں۔ آپ اگلے روز گجرات میں ایک جلسے سے خطاب اور مختلف رہنمائوں سے ملاقات کر رہے تھے۔
امیدواروں کو دھمکایا جا رہا‘ حرکت میں آ گئے تو
کوئی کرسی نہیں بچا سکے گا: مولانا فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ اور پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''ہمارے امیدواروں کو دھمکایا جا رہا ہے‘ حرکت میں آ گئے تو کوئی کرسی نہیں بچا سکے گا‘‘ جبکہ ہماری حرکت میں برکت بھی کچھ زیادہ ہوتی ہے، اس لیے بہتر ہے کہ دھمکیاں دینے والے حرکت میں آنے سے پہلے ہی باز آ جائیں اور اپنی کرسیاں بچا لیں کیونکہ کرسی آسانی سے نہیں ملتی اور اگر مل جائے تو اسے بہر صورت بچانا چاہئے کیونکہ سارا کرسی ہی کا کھیل ہے اور ایسا نہ ہو کہ :
لڑتے لڑتے ہو جائے گُم
ایک کی چونچ اور ایک کی دُم
آپ اگلے روز ملتان میں ایک انتخابی جلسے سے خطاب کر رہے تھے۔
نواز شریف نے جو منشور دیا
اس پر عمل بھی کیا: مریم نواز
سابق وزیراعظم نوازشریف کی صاحبزادی، مسلم لیگ (ن) کی سینئر نائب صدر اور چیف آرگنائزر مریم نواز نے کہا ہے کہ ''نوازشریف نے جو منشور دیا اس پر عمل بھی کیا‘‘ جبکہ تیز رفتار ترقی ہی ان کا منشور تھا جس پر انہوں نے جی بھر کے عمل کر کے دکھا دیا اور جس کی تفصیلات میں جانے کی ضرورت اس لیے نہیں ہے کہ وہ ترقی ہر کسی کو صاف نظر بھی آ رہی ہے بلکہ اس دفعہ وہ اپنے منشور پر زیادہ زور دار طریقے سے عمل کرنا چاہتے ہیں تاکہ انہیں اگلی بار وزیراعظم بننے کی ضرورت ہی نہ رہے جبکہ دونوں ہاتھوں سے صبح و شام ترقی کرنے کا ہنر ان کے علاوہ اور کون جانتا ہے؟ آپ اگلے روز لاہور کے حلقہ این اے 119 میں انتخابی جلسے سے خطاب کر رہی تھیں۔
بلاول کا دس نکاتی ایجنڈا ملک کی تقدیر
بدل دے گا: آصف زرداری
سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ''بلاول کا دس نکاتی ایجنڈا ملک کی تقدیر بدل دے گا‘‘ اگرچہ اپنے دور میں اس ملک کی تقدیر کافی حد تک بدل چکا اور اس کے مزید بدلنے کی کوئی گنجائش اور ضرورت ہی نہیں، لیکن پھر بھی اگر کوئی کسر باقی رہ گئی ہو تو یہ دس نکاتی ایجنڈے کے بائیں ہاتھ کا کرتب ہے جبکہ خاکسار کا سایۂ شفقت بھی قدم قدم پر رہنمائی کے لیے دستیاب ہوگا؛ اگرچہ پارٹی کے بزرگان کے سائے سے متعلق وہ کئی بار اظہارِ خیال بھی کر چکا لیکن مجبوری یہ ہے کہ آدمی کا سایہ ہر وقت اس کے ساتھ ہی رہتا ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں مسیحی برادری کے وفد سے ملاقات کر رہے تھے۔
آج کراچی کا ہر شہری لاہور
جیسا شہر چاہتا ہے: احسن اقبال
سابق وفاقی وزیر اور مسلم لیگ نواز کے مرکزی رہنما احسن اقبال نے کہا ہے کہ ''آج کراچی کا ہر شہری لاہور جیسا شہر چاہتا ہے‘‘ اور لاہور کا ہر شہری کس طرح کا شہر چاہتا ہے اس کا اندازہ لگانے کیلئے سروے کیا جا رہا کیونکہ لاہور کی حالت بھی اب کراچی سے کسی طور کم نہیں اور جونہی اس کے بارے میں معلومات حاصل ہوئیں‘ الیکشن کے بعد اس پر کام شروع کریں گے جبکہ پہلے لاہور کو پیرس تو بنا چکے لیکن ایسا لگتا ہے کہ اہلِ لاہور کو پیرس بھی راس نہیں آیا اور امید ہے کہ ہمیں جلدی ہی معلوم ہو جائے گا کہ اہل لاہور کس طرح کا شہر چاہتے ہیں، اور اگر اس طرح کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکے تو اپنی مرضی سے کام لیتے ہوئے لاہور کو کسی اور اچھے سے شہر کی طرح بنا دیں گے اور وزیراعظم صاحب سے بھی گزارش کریں گے کہ اپنی تیز رفتار ترقی سے کچھ وقت نکالتے ہوئے اسی طرف بھی توجہ دیں۔ آپ اگلے روز نارووال میں ورکرز کنونشن سے خطاب کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں یہ تازہ غزل:
جمع ہوتا ہوں اور بکھرتا ہوں
شکر ہے کچھ نہ کچھ تو کرتا ہوں
یہی پانی ہے کائنات میری
اسی میں ڈوبتا‘ ابھرتا ہوں
ضائع ہوتی ہے میری ہر کوشش
کہیں پورا نہیں اترتا ہوں
راستا ہو نہیں رہا ہے طے
کبھی چلتا کبھی ٹھہرتا ہوں
ہے جو منکر مری زمیں مجھ سے
اپنے اوپر ہی پائوں دھرتا ہوں
ابھی کچھ بھی پتا نہیں چلتا
بات کرتا ہوں یا مکرتا ہوں
فرق پڑتا نہیں کبھی کچھ بھی
کیا بگڑتا ہوں‘ کیا سُدھرتا ہوں
زندہ ہونے کا ہے ثبوت یہی
کہ ہوں جیسا بھی اس پہ مرتا ہوں
میں گزرتا ہوں روز اِدھر سے‘ ظفرؔ
اور شاید نہیں گزرتا ہوں
آج کا مقطع
چکر تھے پاؤں میں کوئی شام و سحر ظفرؔ
اوپر سے میرے سر پہ سوار انتظار تھا