نواز شریف کبھی ملکی سلامتی سے نہیں کھیلے: مریم نواز
سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی صاحبزادی‘ (ن) لیگ کی سینئر نائب صدر اور چیف آرگنائزر مریم نواز نے کہا ہے کہ ''نواز شریف کبھی ملکی سلامتی سے نہیں کھیلے‘‘ کیونکہ جب کھیلنے کے لیے دنیا میں دوسرے لا محدود کھیل موجود ہیں تو ملکی سلامتی سے کوئی کیوں کھیلیں گے‘ ویسے امپائروں کو ساتھ ملا کر کھیلنا ہو تو کوئی بھی کھیل کھیلا جا سکتا ہے‘ نہ صرف کھیلا جا سکتا ہے بلکہ جیتا بھی جا سکتا ہے جبکہ آج کل مخالفین کو سب سے زیادہ تکلیف (ن) لیگ کو ملنے والے پروٹوکول سے ہے اور جس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ اب (ن) لیگ کے قائد کو وزیراعظم بننے کی بھی ضرورت نہیں ہے کیونکہ انہیں انہیں اس عہدے کا کا پروٹوکول پہلے ہی ملنا شروع ہو گیا ہے۔ آپ اگلے روز خانیوال میں انتخابی جلسے سے خطاب کر رہی تھیں۔
تمام اہلیانِ پنجاب کو دعوت
دیتی ہوں نئی سوچ کو چنیں: شہلا رضا
پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما شہلا رضا نے کہا ہے کہ ''تمام اہلیانِ پنجاب کو دعوت دیتی ہوں کہ نئی سوچ کو چنیں‘‘ جبکہ صرف پیپلز پارٹی کے پاس ہی نئی سوچ کے حامل لوگ موجود ہیں‘ اگرچہ بعض بزرگ رہنماؤں کے ہوتے ہوئے ان کا کسی نئی سوچ کا حامل ہونا ممکن ہی نہیں ہے کیونکہ سوچ صرف بزرگوں ہی کی چلتی ہے اور کچھ عرصہ پہلے بلاول نے یہ کہہ کر کہ پرانوں کو خارج کرو اور نئے لوگوں کو آگے آنے دو‘ اپنی سوچ کی طرف اشارہ کیا تھا لیکن برزگوں نے انہیں فوراً چپ کرا دیا تھا اور اگر اب بھی وہ اپنا یہ نئی سوچ کا نعرہ جاری رکھیں تو بھی پارٹی کے بزرگ ان کو پھر سے چپ کرا دیں گے اور ان کی ایک نہیں چلنے دیں گے۔ اس لیے سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں کہ بزرگوں کی سوچ کو ہی نئی سوچ سمجھا جائے۔ آپ اگلے روز کرکٹ گراؤنڈ ٹائون شپ میں چوہدری اسلم گل اور دیگران کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کر رہی تھیں۔
نواز شریف کی قیادت میں ملک
دوبارہ پیروں پر کھڑا ہو گا: حمزہ شہباز
سابق وزیراعلیٰ پنجاب اور (ن) لیگ کے رہنما حمزہ شہباز نے کہا ہے کہ ''نواز شریف کی قیادت میں ملک دوبارہ پیروں پر کھڑا ہوگا‘‘ کیونکہ جب سے (ن) لیگ کی حکومت ختم ہوئی ہے‘ ملک اس وقت سے ہی سر کے بل کھڑا ہے جسے اب دوبارہ حکومت میں آ کر پیروں پر کھڑا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ اگرچہ یہ کام اب کافی مشکل ہو گیا ہے کیونکہ لوگوں کو سر کے بل کھڑا ہونے کی عادت پڑ چکی ہے اور پائوں پر کھڑا ہونے کے لیے انہیں بہت مشکل بھی پیش آ سکتی ہے اور اب وہ مزید مشکل میں پڑنا افورڈ نہیں کر سکتے‘ تاہم یہ بھی ہو سکتا ہے کہ لوگوں کی مشکلات سے آگاہی کیلئے کچھ عرصے کے لیے سر کے بل کھڑا رہ کر دکھانا پڑے۔ بہر حال وہ خاطر جمع رکھیں کہ (ن) لیگ کے حکومت میں آتے ہی ملک کو پیروں پر کھڑا کر دیا جائے گا۔ آپ اگلے روز مریم نواز کے ہمراہ کارکنوں سے خطاب کر رہے تھے۔
(ن) لیگ‘ پی پی نورا کشتی سے قوم
کو بیوقوف بنا رہی ہیں: سراج الحق
امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''(ن) لیگ اور پی پی نورا کشتی سے قوم کو بیوقوف بنا رہی ہیں‘‘ حالانکہ قوم پہلے ہی کافی کم عقل واقع ہوئی ہے جو ان دونوں کو باری باری بر سراقتدار لے آتی ہے‘ اس لیے ان میں مزید بیوقوف بننے کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے اور اگر ایسا کرنا بھی ہو تو اس کے دیگر کئی ذرائع کی موجودگی میں نورا کشتی کا تکلف کرنے کی کیا ضرورت ہے جبکہ نورا کشتی سے بندہ زخمی بھی ہو سکتا‘ نیز کوئی بڑی پسلی بھی ٹوٹ سکتی ہے اور آدمی اصلی کشتی لڑنے کے قابل بھی نہیں رہتا‘ اس لیے اگر بہت ضروری بھی ہو تو یہ دونوں جماعتیں کسی اِن ڈور گیم سے یہ شوق پورا کر سکتی ہیں جس میں کسی جسمانی نقصان کا بھی خطرہ نہیں رہتا۔ آپ اگلے روز منصورہ میں جمعہ کے اجتماع اور بعد میں کارکنوں سے خطاب کر رہے تھے۔
کسی کو انتخابی مہم میں خطرہ ہے
تو رابطہ کرے: نگران حکومت
نگران حکومت نے کہا ہے کہ ''اگر کسی کو انتخابی مہم میں کوئی خطرہ ہے تو رابطہ کرے‘‘ البتہ اگر کسی امیدوار کی گرفتاری عمل میں آتی ہے تو اس سلسلے میں ہم کچھ نہیں کر سکتے کیونکہ اس طرح کے دخل در معقولات کی ہمیں اجازت ہے نہ اختیار؛ چنانچہ ایسی باتیں الیکشن کمیشن حکام کے نوٹس میں ہی لائی جا سکتی ہیں‘ اگرچہ وہ بھی دوسروں کے معاملات میں دخل دینا پسند نہیں کرتے اور صرف الیکشن کا صاف و شفاف انعقاد ہی اپنا واحد فریضہ سمجھتے ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں ڈاکٹر ابرار احمد کی نظم:
ہوا ہر اک سمت بہہ رہی ہے
ہوا ہر اِک سمت بہہ رہی ہے
جلو میں کوچے مکان لے کر
سفر کے بے اَنت پانیوں کی تھکان لے کر
جو آنکھ کے عجز سے پرے ہیں
اُنہی زمانوں کا گیان لے کر
ترے علاقے کی سرحدوں کے نشان لے کر
ہوا ہر اِک سمت بہہ رہی ہے
زمین چپ
آسمان وسعت میں کھو گیا ہے
فضا ستاروں کی فصل سے لہلہا رہی ہے
مکاں مکینوں کی آہٹوں سے دھڑک رہے ہیں
جھکے جھکے نم زدہ دریچوں میں
آنکھ کوئی رُکی ہوئی ہے
فصیلِ شہرِ مراد پر
نا مراد آہٹ اٹک گئی ہے
یہ خاک تیری مری صدا کے دیار میں
پھر بھٹک گئی ہے
دیارِ شام و سحر کے اندر
نگارِ دشت و شجر کے اندر
سوادِ جان و نظر کے اندر
خموشی بحر و بر کے اندر
ردائے صبح خبر کے اندر
اذیتِ روز و شب میں
ہونے کی ذلتوں میں نڈھال صبحوں کی
اوس میں بھیگتی ٹھٹھرتی
خموشیوں کے بھنور کے اندر
دلوں سے باہر‘دلوں کے اندر
ہوا ہر اِک سمت بہہ رہی ہے
آج کا مطلع
یوں بھی نہیں کہ شام و سحر انتظار تھا
کہتے نہیں تھے منہ سے مگر انتظار تھا