8فروری کو عوام شیر پر مہر لگا کر
ملکی تاریخ بدل دیں گے: شہباز شریف
سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے کہا کہ ''8فروری کو عوام شیر پر مہر لگا کر ملکی تاریخ بدل دیں گے‘‘ اور نئی تاریخ کون سی ہو گی‘ اس کا اعلان نواز شریف خود کریں گے اس کے علاوہ باقی سب تاریخیں ملکی ترقی کے لیے وقف ہوں گی کیونکہ وہ اس دفعہ جی بھر کے ترقی کرنا چاہتے ہیں اور اس کام سے کوئی نہیں روک سکتا، اور یہ ایک مجبوری بھی ہے کیونکہ اور کوئی کام آتا ہی نہیں اور نہ ہی یہ کام ان جیسا کوئی کر سکتا ہے، حتیٰ کہ اب تو احتساب والے بھی ان کے معترف ہو گئے ہیں اور ترقی کے اس کام میں ان کے ساتھ بھرپور تعاون کا ارادہ رکھتے ہیں۔ آپ اگلے روز سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
پی ٹی آئی کارکن میرا ساتھ دیں‘
انتقام کی سیاست دفن کر دیں گے: بلاول بھٹو
سابق وزیر خارجہ اور پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''پی ٹی آئی کارکن میرا ساتھ دیں‘ انتقام کی سیاست کو دفن کر دیں گے‘‘ کیونکہ ان کے پاس اضافی ووٹ اتنے ہیں کہ کسی اور کا ساتھ دے کر بھی انہیں کوئی فرق نہیں پڑے گا، جس طرح (ق) لیگ کے چیف آرگنائزر میرا ساتھ دے رہے ہیں کیونکہ ان کے پاس صرف اضافی ووٹ ہی ہیں جو وہ ہمیں دے رہے ہیں جبکہ ہماری پارٹی کے اضافی ووٹوں کے ساتھ مل کر کافی رونق ہو جائے گی کیونکہ ہم بھی اپنے اضافی ووٹوں ہی پر انحصار کر رہے ہیں جبکہ اصل ووٹ تو گھروں سے نکل ہی نہیں رہے، نیز اگر کوئی اور پارٹی اپنے اضافی ووٹوں کے ساتھ تعاون کرنا چاہے تو اسے خوش آمدید کہیں گے۔ آپ اگلے روز ٹائون شپ لاہور میں ایک انتخابی جلسے سے خطاب کر رہے تھے۔
خیبر پختونخوا سے میری کارکردگی نکال
دیں تو صوبہ کھنڈر نظر آئے گا: پرویز خٹک
سابق وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا اور تحریک انصاف پارلیمنٹرینز کے صدر پرویز خٹک نے کہا ہے کہ خیبر پختونخوا سے میری کارکردگی نکال دیں تو صوبہ کھنڈر نظر آئے گا‘‘ اور اب بھی کارکردگی ہی کی وجہ سے کھنڈر نظر آ رہا ہے اور نئی پارٹی بھی اس لیے بنائی ہے کہ صوبے کی تعمیر و ترقی نئے سرے سے شروع کی جا سکے اور اگر اس نے مزید کھنڈر ہونا ہے تو یہ اس کی قسمت کی بات ہے‘ وہ پھر چاہے ہمارے ہاتھوں ہو یا کسی اور ذریعے سے۔ البتہ یہ صرف ہم ہی بتا سکتے کہ یہ کہاں کہاں سے کھنڈر ہوا ہے کیونکہ یہ ہماری حکومت ہی کی بدولت ان حالات کو پہنچا اس لیے ہم ہی اسے اس کی اصل حالت میں لا سکتے ہیں‘ اگرچہ یہ بھی خیال ہی ہے کہ ایسا ہو سکتا ہے۔ آپ اگلے روز زیارت کاکا صاحب میں جلسوں سے خطاب کر رہے تھے۔
پاکستان کے چپے چپے پر نواز‘ شہباز
کی خدمت کے نشان ہیں: مریم نواز
سابق وزیراعظم نوازشریف کی صاحبزادی، مسلم لیگ (ن) کی سینئر نائب صدر اور چیف آرگنائزر مریم نواز نے کہا ہے کہ ''پاکستان کے چپے چپے پر نواز ‘ شہباز کی خدمت کے نشانات ہیں‘‘ جبکہ یہ نشانات نہایت واضح طور پر پاکستان کے باہر بھی متعدد ملکوں میں دیکھے جا سکتے ہیں جن میں مزید اضافے کیلئے وہ لندن سے آئے ہیں، اور اگر اس بار کوئی کسر باقی رہ گئی تو پانچویں بار کیلئے ایک بار پھر لندن سے تشریف لائیں گے کیونکہ ترقی کا ہدف پورا کرنے کے بعد انہیں ہر بار لندن ہی کا سفر اختیار کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ آپ اگلے روز شکر گڑھ سے اپنی انتخابی مہم کا آغاز کر رہی تھیں۔
پی ڈی ایم حکومت سے قیدی زیرو
سے ہیرو بن گیا: مشاہد حسین سید
مسلم لیگی رہنما‘ سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا ہے کہ ''پی ڈی ایم حکومت سے قیدی زیرو سے ہیرو بن گیا‘‘ اور اگر ہمارا کوئی لیڈر بھی ہیرو بننا چاہتا ہے تو اسے بھی یہ کام سرکاری مہمان بن کر کرنا پڑے گا کیونکہ اس کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں ہے اور جس کیلئے پی ڈی ایم کی حکومت کا ہونا بھی شرط نہیں ہے، قید تو ہر کسی کو کندن بنا دیتی ہے جبکہ اس ایک کامیابی کے بعد ہیرو بننا اشد ضروری ہو چکا ہے بصورت دیگر یہی کچھ بھگتنا پڑے گا؛ البتہ اگر یقینی کامیابی حاصل کرنی ہو تو پی ڈی ایم حکومت ہی کافی رہے گی بصورتِ دیگر ہیرو بننے کا خواب دیکھنا ہی چھوڑ دیا جائے‘ ہاتھ کنگن کو آرسی کیا ہے۔ آپ اگلے روز ایک انٹرویو میں اپنے خیالات ظاہر کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں شہباز راجہ کی شاعری:
تھے بھی شاید کبھی مگر تو نہ تھے
مبتلا غم میں اس قدر تو نہ تھے
ہم نے تنہا گزار دی اپنی
زندگی تیرے ہمسفر تو نہ تھے
جس قدر اب ہوئے ہیں ہم محدود
سلسلے اتنے مختصر تو نہ تھے
جھومتے تھے تمھاری ٹہنی پر
ہم کسی اور شاخ پر تو نہ تھے
مجھ پہ احسان ہے یہ اپنوں کا
اتنے الزام میرے سر تو نہ تھے
کچھ نہ کچھ تھے تو ہم بھی آوارہ
عشق میں ایسے دربدر تو نہ تھے
آرزو تھی اداس شاموں کی
خوگرِ مژدۂ سحر تو نہ تھے
ہم اگر نام کے ہوئے بیمار
وہ بھی شہبازؔ چارہ گر تو نہ تھے
٭......٭......٭
پیشِ پا افتادگی میں کو بہ کو کیا دیکھتے
کون تھا کس سمت محوِ جستجو کیا دیکھتے
آمد آئینہ رو سے یہ سبھی مے خوارِ نو
گر رہے ہیں ہاتھ سے سب کے سبو‘ کیا دیکھتے
ہو رہا ہے کیا ہجوم بے طرح سے اردگرد
جو بھی تھے شیریں سخن کے روبرو کیا دیکھتے
ہم فقط کرتے رہے پورے تری آنکھوں کے خواب
اپنی خواہش‘ اپنی ہر اک آرزو کیا دیکھتے
جاں بلب تھی زندگی جب کوچۂ بیداد میں
ایسے عالم میں متاعِ آبرو کیا دیکھتے
دوست بھی شہبازؔ چشمِ تر تھے‘ ایسے حال میں
میری آنکھوں میں یہ بہتی آبجو کیا دیکھتے
آج کا مقطع
غزل میں تھے بہت آزادہ رو ظفرؔ لیکن
تلازمات کی زنجیر سے رہا نہ ہوئے