"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں‘ متن اور ڈاکٹر ابرار احمد کی نظم

مہنگائی ختم‘ بجلی اور روٹی سستی کریں گے: نواز شریف
سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''ہم مہنگائی ختم‘ بجلی اور روٹی سستی کریں گے‘‘ کیونکہ گزشتہ ادوار میں بھی تیز رفتار ترقی کا جو وعدہ کیا گیا تھا وہ اس طرح پورا کر دکھایا کہ ساری دنیا حیران رہ گئی بلکہ یہ وعدے پورے کرنے والے بھی آج تک حیران ہیں کہ یہ سب کچھ اتنی جلدی میں کیسے ہو گیا اور یہ مہنگائی‘ لوڈ شیڈنگ اور اشیائے ضروریہ کی قلت اسی دور کے تحفے ہیں کیونکہ ترقی کے ساتھ مہنگائی وغیرہ تو خود بخود ہی آ جاتی ہے اور اس دفعہ چونکہ معیشت اور ملکی خزانے کی صورتحال ایسی ہے کہ ترقی کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں‘ اس لیے مہنگائی وغیرہ کے خاتمے کی طرف بھرپور توجہ دی جا سکتی ہے‘ تاہم نتائج کے حوالے سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ آپ اگلے روز بوریوالہ میں ایک انتخابی جلسے سے خطاب کر رہے تھے۔
(ن) لیگ کاپی پیسٹ جماعت‘ میرے
اعلانات کی نقل کرتی ہے: بلاول بھٹو
سابق وزیر خارجہ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''(ن) لیگ کاپی پیسٹ جماعت ہے جو میرے اعلانات کی نقل کرتی ہے‘‘ حالانکہ سیاسی بیانات جھوٹ کا پلندہ ہوتے ہیں اور بعض سیاستدان خود ہی جھوٹ اور سیاست کو ہم معنی اور متبادل قرار دے چکے ہیں‘ اس لیے کسی کے جھوٹے بیانات کی نقل کرنے کے بجائے ہر کسی کو اپنے جھوٹ پر انحصار کرنا چاہیے اور اگر دو سیاسی جماعتوں کے قائدین کا مناظرہ ہو جائے تو اس سے صاف پتا چل جائے گا کہ زیادہ جھوٹ کون بولتا ہے‘ اول تو پورا پورا یقین ہے کہ وہ مناظرے پر تیار ہی نہیں ہوں گے اور میدان چھوڑ کر بھاگ جائیں گے۔ آپ اگلے روز ملتان میں انتخابی جلسے سے خطاب کر رہے تھے۔
نواز شریف آٹھ فروری کو لندن
کی فلائٹ کا ٹکٹ کرائیں: گوہر خان
تحریک انصاف کے رہنما بیرسٹر گوہر خان نے کہا ہے کہ'' نواز شریف آٹھ فروری کو لندن کی فلائٹ کا ٹکٹ کرائیں‘‘ بلکہ یقینی صورتحال کے ادراک کیلئے آٹھ کی بجائے نو فروری کا ٹکٹ کرانا چاہیے تاکہ آٹھ فروری کو یہاں رہ کر صورتحال کا صحیح اندازہ لگایا جا سکے کیونکہ جس مقصد کے تحت لندن سے واپسی ہوئی ہے‘ فی الحال اس کے پورا ہونے کا دور دور تک کوئی امکان نہیں ہے‘ اول تو لندن سے آنا ہی نہیں چاہیے تھا بلکہ لندن سے واپسی کی کال دینا ایک بہت بڑی سازش تھی جس میں پارٹی کے کئی اہم رہنما شامل تھے‘ جس میں وہ پوری طرح کامیاب ہوئے ہیں۔ آپ اگلے روز بونیر میں انتخابی جلسے سے خطاب کر رہے تھے۔
ملک نے سیکولر سٹیٹ کا روپ دھار لیا‘ ایک بھی کام شریعت کے مطابق نہیں ہو رہا: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''ملک نے سیکولر سٹیٹ کا روپ دھار لیا ہے اور ایک بھی کام شریعت کے مطابق نہیں ہو رہا‘‘ جس کی ذمہ داری سے بہرحال انکار نہیں کیا جا سکتا کیونکہ تحریک انصاف کے بعد حکومت کی باگیں ہمارے ہی ہاتھوں میں تھیں اور پھر دیکھتے دیکھتے ملک سیکولر ہو گیا اور کسی کو پتا ہی نہیں چلا حتیٰ کہ اب اسے شریعت کی طرف لانے کا خواب ہی دیکھا جا سکتا ہے اور عوام میں تو اب یہ خواب دیکھنے کی سکت بھی باقی نہیں رہی اور سب سے بڑا سوال یہی ہے کہ تاریخ ملک کو سیکولر بنانے والوں کو کیسے معاف کرے گی اور دوسرا بڑا سوال یہ ہے کہ اب اتنے بڑے کام کی ابتدا کون کرے گا۔ آپ اگلے روز ایک انتخابی جلسے سے خطاب کر رہے تھے۔
اناڑی کھلاڑی نے وطنِ عزیز
کا تشخص مجروح کیا: علیم خاں
استحکام پاکستان پارٹی کے صدر عبدالعلیم خاں نے کہا ہے کہ ''اناڑی کھلاڑی نے وطنِ عزیز کا تشخص مجروح کیا‘‘ اگرچہ اس کام میں باقی سب بھی پوری طرح سے شامل تھے اور انہوں نے اپنے خزانے کے منہ اس کی کامیابی کیلئے کھول دیے تھے اور انہیں کچھ کچھ اندازہ بھی تھا کہ وطنِ عزیز کا تشخص مجروح کیا جا رہا ہے لیکن وہ اپنی بعض مجبوریوں کی وجہ سے خاموش رہے جس کی تلافی کیلئے اب میدان میں اترے ہیں تاکہ ملک کے مجروح تشخص کو بحال کریں‘ اگرچہ یہ کوئی آسان کام نہیں ہے اور یہ بھی دیکھنا ہے کہ تاریخ انہیں معاف کرے گی یا نہیں جس کے کوئی زیادہ امکانات نظر نہیں آتے اور سوائے ہاتھ ملنے کے اب ہو بھی کیا سکتا ہے۔ آپ اگلے روز اپنے انتخابی حلقے سے جلسہ عام سے خطاب کر رہے تھے۔
اور اب آخر میں ڈاکٹر ابرار احمد کی نظم:
تری دنیا کے نقشے میں
تری دنیا میں جنگل ہیں‘ہرے باغات ہیں
اور دور تک پھیلے بیاباں ہیں
کہیں پر بستیاں ہیں‘روشنی کے منطقے ہیں
پہاڑوں پر اُترتے بادلوں میں
رقص کرتا ہے سمندر چار سُو
اسی انبوہ کا حصہ نہیں ہوں میں
کہاں ہوں میں
میں تیرے لمس سے اک آگ بن کر پھیلنا
تسخیر کی صورت بپھرنا چاہتا تھا
اور اُترا ہوں‘کسی بے مہر سناٹے کے میداں میں
ہزیمت کی دہکتی ریت پر‘بکھرا پڑا ہوں شام کی صورت
میں جینا چاہتا تھا تیری دنیا میں
ترے ہونٹوں پہ کھلتے نام کی صورت
کہیں دشنام کی صورت‘کہیں آرام کی صورت
میں آنسو تھا‘ترے چہرے پہ آ کر پھول دھرتا تھا
ترے دکھ پر‘گرا کرتا تھا قدموں میں
اے چشمِ تر کہاں ہوں میں
اندھیرے سے بھری آنکھوں میں
چلتی ہے ہوا ہر سو
اور اُڑتے جا رہے ہیں راستے اس میں
زمانوں کے کناروں سے‘ابد کے سرد خانوں تک
ہوا چلتی ہے ہر سُو‘اور اس کی ہم رہی میں
دو قدم چلتا نہیں ہوں میں‘ہجومِ روز و شب میں
کس جگہ سہما ہوا ہوں میں‘کہاں ہوں میں
تری دنیا کے نقشے میں
کہاں ہوں میں
آج کا مقطع
کام نکلا ہے کچھ اتنا ہی یہ پیچیدہ ظفرؔ
جتنا آساں نظر آیا مجھے شاعر ہونا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں