پاکستان معاشی طور پر تو پہلے ہی مشکل صورتحال سے دوچار تھا لیکن گزشتہ چند ماہ کے دوران سیاسی عدم استحکام اور غیریقینی صورتحال کے باعث روپے کے مقابلے میں امریکی ڈالر نے تمام ریکارڈ توڑ دیے۔ ملک میں روزبروز امریکی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی بدترین گراوٹ کا تسلسل جاری ہے۔ روپے کی بے قدری کی وجہ ملک میں بڑھتے ہوئے سیاسی عدم استحکام کی صورتحال کے درمیان مارکیٹ کا معاشی رہنمائی سے محروم ہونا ہے۔ انٹربینک میں بھی ڈالر 230 روپے تک پہنچ چکا ہے جبکہ اوپن مارکیٹ میں امریکی کرنسی 231 روپے پر ٹریڈ کررہی ہے ۔ ایک سابق وفاقی وزیر نے بتایا کہ ان کے ایک قریبی دوست کی بیٹی کا ایک غیرملکی یونیورسٹی میں داخلہ ہوا اور انہوں نے بیٹی کے لیے ڈالر خریدنے تھے۔ پہلے تو اوپن مارکیٹ میں ڈالر دستیاب ہی نہیں تھا اور کافی کوشش کے باوجود ضرورت پوری نہ ہوئی تو پھر دائیں بائیں ہاتھ مارنا شروع کیے۔ درجنوں ٹیلی فون کالز‘ سفارشوں اور تعلقات استعمال کرنے کے بعد بڑی مشکل سے 240روپے کے حساب سے ضرورت کے مطابق ڈالر دستیاب ہوئے۔ یہی حقیقت ہے کہ مارکیٹ میں ڈالر نایاب ہو چکا ہے اور بلیک میں 240روپے سے بھی اوپر فروخت ہو رہا ہے۔ روپے کی قدر میں گراوٹ میں تیزی‘ ریٹنگ ایجنسی فچ کی جانب سے پاکستان کی ریٹنگ منفی کیے جانے‘ یورو بانڈ کی پیداوار میں اضافے اور سٹیٹ بینک کی جانب سے کوئی فعال سپلائی نہ ہونے کے بعد ہوئی ہے۔ روپے کی قدر میں تیزی سے کمی کے بعد ڈالر کے ساتھ دیگر غیرملکی کرنسی کے ریٹس بھی بڑھ رہے ہیں۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی ایک بڑی وجہ بھی پاکستانی کرنسی کی بے قدری ہے۔ ڈالر بے قابو ہونے کے بعد غیرملکی قرضوں میں بھی ہر روز اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ پاکستان نے قرضوں کی ادائیگی امریکی ڈالر میں کرنی ہے‘ اگر ہماری حکومت اور دیگر متعلقہ حکام اسے لگام دینے میں ناکام رہے تو نہ صرف بیرونی قرضوں میں خوفناک حد تک اضافہ ہو جائے گا بلکہ ڈیفالٹ کا خطرہ بھی بڑھ جائے گا۔
موجودہ حالات میں مجھے ایک اعلیٰ افسر کی بات یاد آرہی ہے جو انہوں نے بہت پہلے کہی تھی کہ پاکستان کی ترقی کا واحد حل یہی ہے کہ ہم عالمی اداروں اور دوست ممالک سے مزید قرضے لینا ترک کردیں اور اپنی معیشت مستحکم کرنے کیلئے خود جدو جہد کریں۔ملکی معیشت کو مستحکم کرنے کیلئے دیر پا معاشی پالیسی اور میثاقِ معیشت بھی ناگزیر ہے۔ ملکی برآمدات کا حجم بڑھانے سے بھی ڈالر کی اُڑان کو قابو کیا اور ملکی معیشت کو سہارا دیا جا سکتا ہے۔ مذکورہ افسر فرماتے تھے کہ اگر ہماری حکومتیں سنجیدہ نہ ہوئیں تو ایک وقت ایسا آئے گا کہ بیرونی قرضوں کا بوجھ ہماری کمزور معیشت کو تباہ کرکے رکھ دے گا اور پھر ہماری ملکی کرنسی اس قدر کمزور ہوتی جائے گی کہ ہمیں بیرونی آقائوں کی کڑی سے کڑی شرائط بھی تسلیم کرنی پڑیں گی جو دنیائے اسلام کی پہلی ایٹمی طاقت کی جڑیں کھوکھلی کرکے رکھ دیں گی۔ آج وہ صاحب تو ہم میں نہیں‘ لیکن ان کی باتیں یاد آرہی ہیں۔ موجودہ معاشی حالات ہرگزرتے لمحے ڈیفالٹ کی جانب جا رہے ہیں۔ آئی ایم ایف آئے روز پٹرول‘ بجلی‘ گیس کی قیمتوں میں اضافے اور بھاری ٹیکسوں کا بوجھ عوام پر بڑھانے کے لیے سخت شرائط پیش کر رہا ہے جو ہماری معیشت کو مزید تباہی سے دوچار کررہی ہیں اور پاکستان کی اقتصادی صورتحال کے باعث چوریوں‘ ڈکیتیوں‘ راہزنی اور سٹریٹ کرائم کے ساتھ دھوکہ دہی اور فراڈ کے واقعات خطرناک حد تک بڑھ چکے ہیں اور اگر خدانخواستہ یہی صورتحال برقرار رہی تو ملک میں خانہ جنگی شروع ہو سکتی ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ ہمارے حکمران اُس محب وطن اور دور اندیش شخص کی تجاویز پر غور کریں اور عالمی اداروں سے درخواست کریں کہ ہم فی الحال قرضوں کی اقساط ادا نہیں کر سکتے‘ جب ملک کی معاشی صورتحال بہتر ہوگی‘ ملک میں مہنگائی کا طوفان تھم جائے گی بلکہ قیمتیں اپنی جگہ پر واپس آجائیں گی تو پھر ہم آسان اقساط کی صورت میں تمام قرضے واپس کردیں گے۔ بیرونی قرضوں کی اقساط روکنے سے ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر میں بھی استحکام آئے گا اور ہماری اپنی کرنسی بھی مستحکم ہوگی۔
مارکیٹ کو مستحکم کرنے کے لیے ملک میں سیاسی استحکام ضروری ہے۔ وزیراعظم میاں شہباز شریف تو اقتدار سے پہلے بھی میثاقِ معیشت کے حامی ہیں اور انہوں نے بطور اپوزیشن لیڈر بھی سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کو ایک سے زائد بار میثاقِ معیشت کے لیے اپنے بھرپور تعاون کا یقین دلاتے ہوئے اس بات پر زور دیا تھا کہ ملک کو معاشی طور پر مستحکم کرنے اور عوام کو بدحالی سے بچانے کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو کم ازکم میثاقِ معیشت پر متفق ہونا پڑے گا لیکن بدقسمتی سے سابق وزیراعظم اس بات پر اڑے رہے کہ وہ مخالفین کے ساتھ بات نہیں کریں گے‘ اگر سابق وزیراعظم نے اُس وقت اپنے مؤقف میں لچک دکھائی ہوتی اور اپوزیشن کے ساتھ مل کر میثاق معیشت پر دستخط کیے ہوتے تو موجودہ حالات پیش نہ آتے اور شاید کپتان کی حکومت بھی ختم نہ ہوتی۔ ہمارے سیاستدانوں کو چاہیے کہ اب بھی ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھیں اور کم ازکم ملک کو معاشی تباہی سے بچانے کے لیے تو ایک پیج پر آجائیں۔ وزیراعظم شہبازشریف کو چاہیے کہ سب سے پہلے عوام کو میثاقِ معیشت پر اعتماد میں لیں اور بتائیں کہ سیاسی اختلافات اپنی جگہ لیکن ہمیں عوام کو مہنگائی‘ بھوک اور افلاس سے بچانے کے لیے مضبوط معاشی پالیسیوں کی ضرورت ہے جو حکومتوں کی تبدیلی کی صورت میں بھی متاثر نہ ہوں کیونکہ ماضی میں تو یہی کچھ ہوتا آرہا ہے کہ ایک حکومت جو بھی معاشی پالیسیاں بناتی ہے تو اگلی حکومت اپنی مرضی و منشا کے مطابق اُس میں ترامیم کردیتی ہے جس کی وجہ سے آج تک ہماری کرنسی مستحکم نہ ہو سکی اور مہنگائی و بیروزگاری میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کے مطابق پچھلے مہینے 7 ارب ڈالر سے زائد کی درآمدات ہوئی تھیں‘ امپورٹس کی ادائیگی سے روپے پر دباؤ بڑھا ہے‘ اب ہمارے پاس دو مہینے کا ڈیزل اور فرنس آئل موجود ہے‘ دو مہینے تک ڈیزل اور فرنس آئل امپورٹ نہیں کریں گے‘ جس کی وجہ سے کچھ دنوں میں ڈالر کی ڈیمانڈ کم ہو جائے گی اور آئندہ ماہ روپے کی قدر بھی مستحکم ہو جائے گی۔ وزیرخزانہ کے مطابق معیشت درست سمت میں چل رہی ہے‘ ڈالر کو عالمی معاہدوں کی وجہ سے کیپ نہیں کر سکتے۔
عالمی معاہدے اپنی جگہ لیکن ہمارے حکمرانوں کو اپنے عوام کی حالت کو مدِنظر رکھتے ہوئے فیصلے کرنا ہوں گے کیونکہ حکومت آئی ایم ایف کے دباؤ میں تو ایسے مشکل فیصلے مسلسل کرتی چلی آرہی ہے جن سے مہنگائی میں کئی سو فیصد اضافہ ہو چکا ہے اور ابھی یہ سلسلہ تیزی سے جاری ہے لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام کو اعتماد میں لے کر سیاسی جماعتیں میثاقِ معیشت پر دستخط کریں اور پھر اسی کی روشنی میں عالمی مالیاتی اداروں کو اپنے عوام کی حالت زار سے آگاہ کرکے قائل کریں کہ پاکستان کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دیا جائے اور قرضوں کی ادائیگی کی خاطر پاکستانی عوام کا گلہ نہ گھونٹا جائے ورنہ خدانخواستہ یہاں بھی سری لنکا جیسے حالات پیدا ہو جائیں گے لہٰذا بہتر یہی ہے کہ پانی سر سے گزرنے سے پہلے ہی ڈالر کو لگام دی جائے اور معاشی مسائل کا تدارک کر لیا جائے۔