عام پاکستانی یہی سمجھتا رہا کہ ہمارا دشمن صرف مشرق میں بیٹھاہے‘ ہم ہمیشہ صرف بھارت کو ہی روایتی حریف سمجھتے رہے‘ اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ قیامِ پاکستان سے لے کر آج تک انڈیا ہمارے خلاف ہر وقت سازشوں میں مصروف رہتاہے‘ دونوں ممالک کے درمیان کئی جنگیں ہو چکی ہیں اور ہمسایہ ہونے کے باوجود دونوں ممالک کے درمیان ہمیشہ کشیدگی پائی جاتی ہے حتیٰ کہ بھارت کھیلوں میں بھی سیاست اور سازشوں سے باز نہیں آتا لیکن ہمیں مشرقی سرحدوں سے اس لیے زیادہ خطرہ نہیں ہوتا کیونکہ افواجِ پاکستان ہر وقت ان سرحدوں کی حفاظت کے لیے چاک وچوبند اور پاک سرزمین کی طرف اٹھنے والی ہر میلی آنکھ کو پھوڑنے کے لیے تیار رہتی ہیں۔ یہ بات ہمارے دشمن بھی جانتے ہیں اور انہیں ستمبر 1965ء میں بھارتی فوج کے لاہور میں ناشتہ کرنے کے خواب سے ابھینندن کی چائے تک سب کچھ یاد ہے بلکہ تاقیامت یاد رہے گا۔
پاکستان کے لیے ہمارے دو ہمسایہ اسلامی ممالک افغانستان اور ایران زیادہ مسئلہ بنتے جا رہے ہیں کیونکہ پاکستان نے ہمیشہ ان دونوں کو برادر اسلامی ملک سمجھتے ہوئے دوستی اور تعاون کا ہاتھ بڑھایا اور ان کی سلامتی کے لیے قربانیاں دیں۔علاقائی سالمیت اور ہمسایہ ممالک کی خودمختاری کا احترام کیا لیکن بدقسمتی سے ان دونوں پڑوسی ممالک کی سرزمینِ پاکستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال ہورہی ہے ۔ ہمارے دو سرحدی صوبے خیبرپختونخوا اور بلوچستان اپنے دونوں ہمسایہ اسلامی ممالک سے مسلسل نشانہ بنائے جارہے ہیں ۔ خیبرپختونخوا افغانستان سے شدید متاثرہ ہے جبکہ بلوچستان کے شہری ایران کی سرحد سے محفوظ نہیں۔ پاکستان چالیس سال سے افغان پناہ گزینوں کی میزبانی کر رہاہے لیکن آخر کار غیرقانونی طور پر مقیم غیرملکیوں کے ہاتھوں تنگ آکر انہیں واپس بھجوانے کا فیصلہ کیا۔آئے روز افغانستان سے ہونے والی دراندازی کے بعد پاکستان نے غیرقانونی افغانیوں کو نکالنے کا سوچا اور اب تک لاکھوں غیرقانونی طور پر مقیم افغانی وطن واپس جا چکے ہیں۔
ایران کی سرزمین سے بلوچستان میں ہمیشہ دہشت گردی اور تخریب کاری کی کارروائیاں ہوتی رہیں لیکن دو روز قبل جو ہمسایہ اسلامی ملک نے کیا‘ اس کی نہ تو توقع تھی اور نہ ہی یہ قابلِ معافی ہے۔ واضح رہے کہ ایران کی جانب سے پاکستان کی فضائی حدود میں میزائل حملے کے نتیجے میں دو معصوم بچے جاں بحق اور تین بچیاں زخمی ہو گئی تھیں۔پاکستان نے اپنی فضائی حدود کی بلااشتعال خلاف ورزی اور پاکستانی حدود میں حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے ایرانی ناظم الامور کو وزارتِ خارجہ میں طلب کیا تھااور پھر ایران سے اپنا سفیر واپس بلالیا‘ جس کے بعد ایران میں پاکستان کے سفیر مدثر ٹیپو اسلام آباد پہنچ گئے‘ انہوں نے ایران کے دارالحکومت تہران میں پاکستانی سفارتی عملے سے گزشتہ روز الوداعی ملاقاتیں کرلی تھیں۔پاکستان نے ایران کے ساتھ تمام اعلیٰ سطحی تبادلوں کو معطل کرنے کا بھی فیصلہ کرلیا اور پاکستان میں ایران کے سفیر‘ جو اس وقت ایران میں ہی ہیں‘ ان کو بھی پاکستان واپس نہ آنے کا کہہ دیا گیا ہے۔
عالمی برادری نے بھی پاکستان میں ایران کی جانب سے میزائل حملہ کیے جانے پرشدید ردِعمل کا اظہار کیا۔امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے ایرانی حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ تہران نے تین ہمسائیہ ممالک کی خود مختار سرحدوں کی خلاف ورزی کی۔ ایران خطے میں دہشت گردی کا سب سے بڑا سپانسر ہے‘ اس کی وجہ سے امریکی فوج عراق میں موجود ہے۔ دوسری جانب پاک ایران کشیدگی پر چین کی جانب سے ثالثی کی پیشکش کی گئی ہے۔ چین کے قونصل جنرل یانگ یوڈونگ کا کہنا ہے کہ پاک ایران اختلافات بات چیت سے حل کیے جاسکتے ہیں۔ دونوں ملکوں سے کہتے ہیں کہ تحمل کا مظاہرہ کریں اور تعلقات اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے مطابق آگے بڑھائیں۔
گزشتہ کئی برسوں کے دوران پاکستان دہشت گردوں کی پناہ گاہوں سے متعلق اپنے تحفظات ایران کے ساتھ شیئر کرتا رہا ہے۔ پاکستان نے دہشت گردوں کی موجودگی اور سرگرمیوں کے ٹھوس شواہد کے ساتھ متعدد ڈوزیئرز بھی شیئر کیے ہیں لیکن ہمارے سنجیدہ تحفظات پر عمل نہ ہونے کی وجہ سے یہ نام نہاد سرمچار بے گناہ پاکستانیوں کا خون بہاتے رہے۔ایران کی جانب سے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی نہ کرنے‘ پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی اور پنجگور میں میزائل حملے کے جواب میں پاکستان نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے ایران میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر ٹارگٹڈ حملے کر دیے۔ پاکستان نے ایران کے صوبے سیستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں پر ٹارگٹڈ حملے کیے‘ جوابی حملے میں ایران کے کسی سویلین یا فوجی ہدف کو نشانہ نہیں بنایا گیا۔افواجِ پاکستان کے آپریشن کو ''مرگ بر سرمچار‘‘کا نام دیا گیا ہے جبکہ انٹیلی جنس کی بنیاد پر کیے گئے آپریشن میں متعدد دہشت گرد ہلاک ہوئے ہیں۔یہ کارروائی نام نہاد سرمچاروں پر مصدقہ انٹیلی جنس کی روشنی میں کی گئی جو پاکستان کے تمام خطرات کے خلاف اپنی قومی سلامتی کے تحفظ اور دفاع کے غیر متزلزل عزم کا مظہر ہے۔پاکستان آئندہ بھی اپنے عوام کے تحفظ اور سلامتی کے لیے تمام ضروری اقدامات کرتا رہے گا۔پاکستان اسلامی جمہوریہ ایران کی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کا مکمل احترام کرتا ہے لیکن گزشتہ روز کی کارروائی کا واحد مقصد پاکستان کی اپنی سلامتی اور قومی مفاد کا حصول تھا جس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔ بین الاقوامی برادری کے ایک ذمہ دار رکن کے طور پر پاکستان اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے اصولوں اور مقاصد کو برقرار رکھتا ہے۔
پاکستان نے ایرانی حملے کے بعد مغربی سمت سے آنے والی تمام پروازوں کی مانیٹرنگ شروع کردی ہے۔ سول ایوی ایشن اتھارٹی مغربی سرحدوں پر فضا میں ہونے والی ہر سرگرمی کو مانیٹرکر رہی ہے اور مغرب سے آنے والی تمام پروازوں سے متعلق الرٹ رہنے کی ہدایت ہے۔ ایئر ٹریفک کنٹرول کو ایران سمیت تمام مغربی پروازوں کی تفصیلات اکٹھی کرنے کی بھی ہدایت دی گئی ہے۔ اس سے پہلے مغرب کی طرف سے پاکستان آنے والی پروازوں کی مانیٹرنگ نہیں ہوئی۔ پاکستان اور ایران کی فضائی حدود کمرشل پروازوں کے لیے کھلی ہے اور ابھی تک ایران کے لیے پاکستانی فضائی حدود بند کرنے کا کوئی فیصلہ نہیں ہوا اور صورتحال کو غور سے مانیٹر کیا جا رہا ہے۔
ایران کی سرکاری نیوز ایجنسی ارنا نے ایران میں حملوں میں7 افرادکی ہلاکت کی تصدیق کرتے ہوئے تسلیم کیا کہ ہلاک ہونے والے ایران کے شہری نہیں تھے۔ ایران کے صوبے سیستان بلوچستان کے ڈپٹی گورنر علی رضا مرحمتی کا کہنا ہے کہ سروان شہر کے قریب صبح چار بج کر پانچ منٹ پر دھماکوں کی آواز سنی گئی۔سروان شہر صوبے کے دارالحکومت زاہدان کے جنوب مشرق میں 347 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ادھرایران کے ساتھ کشیدگی کے معاملے پر نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے کابینہ کا اجلاس آج دن دوبجے طلب کرلیاہے۔ اجلاس میں موجودہ ملکی سکیورٹی صورتحال اور پاک ایران کشیدگی پر شرکا کو بریفنگ دی جائے گی اور پاک ایران کشیدگی پر آئندہ کے لائحہ عمل پر بھی غور کیا جائے گا۔
پاکستانی عوام کی طرف سے ایران کی جانب سے بلوچستان میں میزائل حملے پر شدید ردِعمل کا اظہار کیاگیا اور اسے قومی سلامتی کے خلاف قرار دیتے ہوئے افواجِ پاکستان کی جانب سے آپریشن مرگ بر سرمچار کی بھرپور حمایت سامنے آئی ہے۔ پاکستان آج بھی اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ امن وسلامتی کے ساتھ رہنا چاہتا ہے لیکن اپنی سلامتی پر کبھی سمجھوتہ نہیں کر سکتا۔ افواجِ پاکستان کی کامیاب کارروائی نے ثابت کردیاکہ ہماری پرسکون نیند کے لیے ہماری بہادر افواج سرحدوں پر جاگ رہی ہیں اور وطنِ عزیز کا دفاع ناقابلِ تسخیر ہے‘ ہماری امن کی خواہش ہر گز کمزوری نہیں۔