معاشی مسائل اور اقتصادی ابتری کے قصے سن سن کر اب تو کان پک گئے ہیں۔ گزشتہ لگ بھگ دو‘ ڈھائی سال سے عوام کو یہ کہہ کر ڈرایا جا رہا ہے کہ ملک دیوالیہ ہونے کے قریب ہے اور ساتھ ہی ساتھ عوام پر مزید ٹیکسوں کا بوجھ لاد دیا جاتا ہے۔ اب تو عالم یہ ہو چکا ہے کہ عوام کی کمر ٹیکسوں کے بوجھ سے دہری ہو چکی ہے اور ریلیف کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی مگر اس کے باوجود معاشی بحران ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا، مہنگائی کا جن بوتل میں بند ہونے کو تیار ہی نہیں ہے۔ اس وقت الیکشن سر پر ہیں اور ہر سیاسی جماعت قومی معیشت کے مدار پر سیاست کر رہی ہے۔ ہر پانچ برس بعد انتخابی مہم کے دوران مختلف سیاسی رہنمائوں کی زبانی بیروزگاری کے خاتمے اور معاشی خوشحالی کی نوید سننے کو ملتی ہے لیکن پھر اگلے پانچ سال اسی انتظار میں گزر جاتے ہیں مگر نہ تو روزگار کے مواقع پیدا ہو پاتے ہیں اور نہ ہی اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو اپنی اپنی مہارت اور قابلیت کے مطابق مستقل ملازمت مل پاتی ہے۔ ملک کی تباہ حال معاشی صورتِ حال پر ہر کوئی اپنے اپنے زاویے سے تبصرے کرتا ہے لیکن اگر اس کی بنیادی وجوہات کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ آج تک ہمارے پالیسی ساز اداروں اور اربابِ اختیار نے مسائل پر قابو پانے کے لیے کبھی کوئی مؤثر اور ٹھوس پالیسی تیار نہیں کی۔ وطن عزیز کی معاشی تاریخ کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ جب تک عوام اپنے اپنے آبائی علاقوں‘ جن میں زیادہ تر دیہی آبادیاں شامل تھیں‘ میں رہ رہے تھے تو اس وقت تک نہ تو مہنگائی کا جن بے قابو ہوا تھا‘ نہ نوجوان نسل کو روزگار کے لالے پڑے ہوئے تھے اور نہ ہی ماحولیاتی آلودگی نے انسانی زندگی کو خطرات سے دوچار کیا تھا۔
جب لوگوں نے اندھا دھند شہری آبادیوں کا رخ کرنا شروع کیا تو آہستہ آہستہ مسائل بھی بڑھتے چلے گئے۔ تجاوزات اور قبضہ مافیا نے شہری زندگی کو مزید تنگ کر دیا، شہروں کے پھیلنے کے سبب سائیکل کی جگہ آٹو ٹرانسپورٹ نے لے لی اور رہائشی علاقوں میں کمرشل سرگرمیاں بڑھنے سے فضا بھی آلودہ ہونے لگی، جس کے بعد عوام پر گنجان آباد شہری زندگی کے مسائل آشکار ہونے لگے؛ تاہم اب ایک بار پھر لوگ آہستہ آہستہ نواحی علاقوں کی ہائوسنگ سوسائٹیوں کی طرف نقل مکانی کرتے ہوئے شہری مسائل سے چھٹکارا پانے لگے ہیں۔ دراصل یہ رفتہ رفتہ اُسی پرانی دیہی زندگی کی طرف واپسی کا سفر ہے جو موجودہ مسائل سے پاک صاف ہوتی تھی اور جہاں لوگ پُرسکون زندگی بسر کر رہے تھے۔
1950ء کی دہائی میں امریکی ماہرِ معیشت چارلس ٹیبو (Charles Tiebout) نے شہریوں کے لیے ایک تصور پیش کیا جسے ''vote with their feet‘‘ کا نام دیا گیا۔ اس کے مطابق لوگوں کو ان علاقوں سے نقل مکانی کر جانی چاہیے جہاں خدمات بہتر نہ ہوں یا جہاں بہت زیادہ ٹیکسز عائد ہوں۔ اپنے اس تصور کی دلیل چارلس نے یہ پیش کی کہ اس طرح مقابلے کی فضا پیدا ہو گی جس کے نتیجے میں شہر اور ریاستیں لوگوں کو بہتر خدمات فراہم کریں گی۔ موجودہ دور میں ہائوسنگ سکیموں میں کسی حد تک مقابلے کی یہ فضا نظر آتی ہے لیکن یہ نجی سیکٹر میں مقابلے کی فضا ابھری ہے شہری و بلدیاتی یا صوبائی حکومتوںمیں اس حوالے سے کوئی احساسِ ذمہ داری نہیں پایا جاتا۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ ہمارا معاشی بحران تبھی ختم ہو گا جب وطن عزیز کی مقامی حکومتیں بااختیار ہوں گی اور وہ اپنے اپنے علاقے میں مقامی آبادی کے لیے ایک دوسرے سے بڑھ کر مراعات و سہولتیں فراہم کریں گی۔ ایک طرف پاکستان کی اقتصادی صورتحال تنزلی کا شکار ہے‘ لوگوں کی قوتِ خرید نہ ہونے کے برابر ہوچکی ہے لیکن دوسری طرف سرکاری ٹیکسوں کا جائزہ لیا جائے تو وہ چارلس ٹیبو کے تصور کی طرح عام آدمی کی آمدن سے زیادہ نظر آتے ہیں۔ حکومت عام آدمی کے لیے مراعات فراہم کر رہی ہے یا نہیں‘ لیکن ٹیکسز کئی گنا ضرور وصول کر رہی ہے۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے رواں مالی سال کی پہلی ششماہی میں 4468 ارب روپے کی ریکارڈ ٹیکس وصولیاں کی ہیں اور مالی سال کی پہلی ششماہی کا ہدف حاصل کر لیا ہے، جولائی تا دسمبر 2023ء کے لیے ٹیکس وصولیوں کا ہدف 4425 ارب روپے رکھا گیا تھا لیکن ایف بی آر کی ٹیکس وصولیاں 4468 ارب روپے رہیں یعنی ہدف سے 43 ارب روپے زائد ٹیکس اکٹھا کیا گیا۔ واضح رہے کہ گزشتہ مالی سال کی پہلی ششماہی میں 3428 ارب روپے اکٹھے کیے تھے یعنی اس سال اسی مدت کے مقابلے میں 1040 ارب روپے زائد ٹیکس اکٹھا کیا گیا ہے۔ اب یہاں سوال یہ ابھرتا ہے کہ کیا اس مدت کے دوران عوام کی مالی سکت میں کوئی اضافہ ہوا ہے؟ بالکل نہیں! حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر گرنے سے مالی سکت میں کمی آئی ہے اس کے باوجود ٹیکس کولیکشن میں ایک کھرب سے زائد کا اضافہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ حکومت عوام کو مکمل نچوڑ لینے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
اگر معاشی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو پاکستان سٹاک مارکیٹ میں اس وقت مندی کا رجحان ہے جس کے باعث سرمایہ کاروں کو اربوں کا نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ سٹاک مارکیٹ میں کاروباری ہفتے کے پہلے روز کا اختتام منفی زون میں ہوا جس کے باعث 100 انڈیکس 1039 پوائنٹس کی کمی کے ساتھ 62 ہزار 773 پوائنٹس کی سطح پر بند ہوا۔ گزشتہ کاروباری ہفتے کے آخری روز سٹاک مارکیٹ میں 100 انڈیکس 63 ہزار 813 پوائنٹس کی سطح پر بند ہوا تھا۔ ملک میں سونے کی فی تولہ قیمت میں 1500 روپے اضافہ ہوا ہے جس کے بعد 24 قیراط سونا 2 لاکھ 15 ہزار 400 روپے فی تولہ ہو گیا ہے۔ادھر سٹیٹ بینک نے نئی مانیٹری پالیسی کا بھی اعلان کر دیا ہے جس میں شرحِ سود 22 فیصد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ گورنر سٹیٹ بینک کی سربراہی میں مانیٹری پالیسی کمیٹی کے اجلاس میں ملکی معاشی صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد شرحِ سود میں ردوبدل نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس وقت ملکی زرمبادلہ کے ذخائر 8.3 ارب ڈالر ہیں جبکہ مہنگائی کا دبائو اب بھی برقرار ہے اور توانائی قیمتوں کا اثر اس حوالے سے سب سے اہم ہے۔ مرکزی بینک کا کہنا ہے کہ رواں مالی سال مہنگائی 23 سے 25 فیصد جبکہ جی ڈی پی کی شرح 2 سے 3 فیصد رہے گی۔ امید کی جا رہی ہے کہ مارچ کے بعد مہنگائی کی شرح میں کمی ریکارڈ کی جائے گی اور عالمی منڈی میں تیل اور اجناس کی قیمتوں میں کمی کا امکان ہے۔ ایک طرف حکومت مہنگائی کنٹرول کرنے میں ابھی تک کامیاب نہیں ہو پا رہی تو دوسری طرف آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی(اوگرا) نے گیس کی قیمتوں میں 41 فیصد مزید اضافے کی سفارش کر دی ہے جس کی منظوری کے بعد اگلے ماہ سے اضافہ لاگو ہونے کا امکان ہے۔ اوگرا اس سے پہلے ایک سال میں گیس ٹیرف 400 فیصدبڑھا چکا ہے۔
اس وقت آئی ایم ایف کی جانب سے ہر قسم کی سبسڈیز ختم کرنے کا دبائو ہے؛ تاہم شکر ہے کہ آئی ایم ایف نے بینظیر انکم سپورٹ سکیم بند کرنے کیلئے دبائو نہیں بڑھایا بلکہ اس کے علاوہ بھی سماجی پروگرام چلانے پر زور دیا ہے۔ آئی ایم ایف کے مطابق پاکستان کو کمزور طبقے کے سماجی تحفظ کے زیادہ اقدامات کرنے چاہئیں۔ آئی ایم ایف کے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ کمزور طبقے کے لیے محفوظ بجلی اور گیس ٹیرف سلیب جاری رہنا چاہیے، منتخب حکومت مالی سال کے آخر تک سماجی تحفظ کے اخراجات جاری رکھے، بینظیر انکم سپورٹ کے انتظامی ڈھانچے کو مزید بہتر کیا جانا چاہیے، یہ بہترین میکانزم کے ساتھ فوری مدد فراہم کرنے والا پروگرام ہے جس میں تقسیم کے طریقہ کار اور شفافیت کو بہتر بنانے کی گنجائش ہے۔ آئی ایم ایف کا اعلامیہ اپنی جگہ مگر ملک کی معیشت کو بہتر بنانا ہے تو پیداواری عمل کو تیز کرنا ہو گا جس کے لیے توانائی کی قیمتوں کو کم کرنا ناگزیر ہے۔ حکومت کو ٹیکسوں میں اضافے سے سرکاری خزانے کو بھرنے پر زور دینے کے بجائے عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے۔