ایک بھارتی فلم کا کلپ آج کل سوشل میڈیا پر وائرل ہے۔ یہ فلم دراصل بھارت کے ایک سول سرونٹ (آئی پی ایس) آفیسر کی حقیقی زندگی کے واقعات پر مبنی ہے۔ وائرل کلپ میں نوجوان کے آئی پی ایس ملازمت کے لیے دیے گئے انٹرویو کی منظر کشی کی گئی ہے۔ دورانِ انٹرویو سوال کیا گیا کہ تم ایف اے (انٹرمیڈیٹ) امتحان میں فیل کیوں ہوئے؟ نوجوان نے بڑی معصومیت سے جواب دیا کہ اس سال ہمارے گائوں کے امتحانی مرکز میں بوٹی (نقل) نہیں چل سکی جس کی وجہ سے صرف میں ہی نہیں بلکہ پورا گائوں فیل ہوگیا تھا‘ اگر اس سال سختی نہ ہوتی تو میں بھی پاس ہو جاتا۔ انٹرویو پینل میں شریک ایک سینئر افسر نے حیران ہو کر پوچھا کہ کیا وہاں ہر سال نقل چلتی ہے؟ اس پر نوجوان نے جواب دیا کہ جی بالکل! میرے بڑے بھائی‘ کزن اور سارے دوست نقل کر کے ہی پاس ہوئے تھے لیکن میری بدقسمتی کہ اس سال جن پروفیسر صاحب کی ڈیوٹی ہمارے گائوں میں لگی‘ وہ نہ تو کسی کی دعوت قبول کرتے تھے اور نہ ہی انہوں نے نقل کرنے دی، اس لیے سارا گائوں فیل ہو گیا۔
آج کل وطنِ عزیز پاکستان میں ہر جگہ عام انتخابات کی گہما گہمی دکھائی دے رہی ہے۔ دھند، سموگ اور شدید سردی کے باوجود سیاسی طور پر ماحول خاصا گرم اور پارہ ہائی ہے۔ عام انتخابات میں اب دو ہفتے سے بھی کم وقت باقی رہ گیا ہے جس کی وجہ سے آج کل عوام کو اپنے نمائندوں کی شکل دیکھنے بلکہ ان سے گلے ملنے کے مواقع بھی مل رہے ہیں۔ انتخابی مہم میں اب پہلے کی نسبت کافی تیزی آ گئی ہے۔ سیاستدانوں نے ووٹروں کو رام کرنے کیلئے دن رات ایک کر رکھا ہے‘ ہر کوئی دودھ کی نہریں بہانے‘ آسمان سے تارے توڑ کر لانے‘ مہنگائی ختم کرنے اور بیروزگار نوجوانوں کو پُرکشش نوکریوں کے سبز باغ دکھا رہا ہے۔ مہنگی بجلی کو مفت کرنے اور بے گھروں کو گھر بنا کر دینے کے وعدے اور یقین دہانیاں ایک بار پھر انتخابی جلسوں میں گونج رہی ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف، شہباز شریف اور مریم نواز بھی سیاسی میدان میں متحرک ہو چکے ہیں اور ملک کو ایک بار پھر ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنے کے دعوے اور وعدے کر رہے ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ اگر ان کی حکومتیں ختم نہ کی جاتیں تو آج پاکستان کافی خوشحال ہوتا، وہ اپنی حکومت گرانے والوں کو ہدفِ تنقید بنا رہے ہیں۔ دوسری جانب چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری بھی مخالفین کو ٹف ٹائم دینے کیلئے کمر کس چکے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی پنجاب اور سندھ میں بھرپور سیاسی سرگرمیاں جاری ہیں، بلاول بھٹو اپنی انتخابی مہم میں 300 یونٹ تک بجلی مفت دینے سمیت بڑے بڑے دعوے کر رہے ہیں، اس حوالے سے جب ایک صحافی نے ان سے سوال کیاکہ یہ کیسے ممکن ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ کم ازکم خواب تو دیکھنے ہی چاہئیں۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ وہ عوام کو صرف خواب دکھا کر ووٹ لینا چاہتے ہیں۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ان کی انتخابی جلسوں میں کی گئی تقاریر کا بڑا حصہ مخالفین پر تنقید پر مشتمل ہوتا ہے، وہ اپنی پارٹی کی کارکردگی بتانے کے بجائے خواب دکھانے اور دوسروں پر تنقید کرنے پر ہی انحصار کر رہے ہیں۔ ایم کیو ایم (پاکستان)، جماعت اسلامی، جے یو آئی (ایف) اور استحکام پاکستان پارٹی نے بھی انتخابی مہم تیز کر دی ہے۔ مسلم لیگ (ض) کے سربراہ اعجاز الحق نے اپنے ہم خیال سیاستدانوں کے ساتھ مل کر قومی یکجہتی اتحاد قائم کرنے کا اعلان کیا ہے؛ تاہم یہ اتحاد کسی ایک انتخابی نشان پر الیکشن نہیں لڑ رہا بلکہ اس میں مختلف مقامی سیاسی جماعتیں اور آزاد امیدوار شامل ہیں۔ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد گرفتار ہونے کے سبب جیل ہی سے انتخابی مہم چلا رہے ہیں جبکہ ان کے بھتیجے راشد شفیق ووٹروں تک ان کا پیغام پہنچا رہے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار بھی بڑے پُرجوش اور پُراعتماد ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے بانی چیئرمین کو قید کرنے اور انتخابی نشان واپس لیے جانے کے باوجود کچھ خاص فرق نہیں پڑے گا اور عوام کی ہمدردیاں ان کے ساتھ بڑھ گئی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ الیکشن میں سب کو سرپرائز ملے گا لیکن دوسری طرف پی ٹی آئی کا ووٹر اس بات سے پریشان ہے کہ اب چونکہ پارٹی کا ایک نشان نہیں ہے‘ اس لیے ہر حلقے میں متعدد امیدوار خود کو بانی پی ٹی آئی کا سپاہی اور پارٹی کا امیدوار ظاہر کر رہے ہیں، اگر پارٹی کا ایک انتخابی نشان ہوتا تو ووٹروں کے لیے اصل امیدوار کو ووٹ دینا آسان ہوتا لیکن اب ہر حلقے میں چار سے پانچ امیدوار خود کو پی ٹی آئی کا امیدوار ظاہر کر رہے ہیں‘ سب نے اپنے پوسٹرز، بینرز اور سٹیکروں پر پی ٹی آئی کے جھنڈے کے علاوہ بانی چیئرمین کی تصویر لگا رکھی ہے جس کے باعث کارکنوں کے لیے اصل اور نقل میں فرق کرنا مشکل ہوگیا ہے۔
سیاسی مخالفت ہر دور میں جاری رہتی ہے‘ ماضی میں بھی انتخابی مہم کے دوران مخالفین پر مختلف قسم کے الزامات عائد کیے جاتے تھے، مقدمات بنائے جاتے تھے، ایک دوسرے کو جیلوں میں بھی ڈالا جاتا تھا لیکن اس کے باوجود اخلاقیات اور سیاسی اقدار کا خیال رکھا جاتا تھا۔ سیاسی مخالفت کبھی ذاتی دشمنی تک نہیں پہنچتی تھی اور حریفوں پر تنقید تہذیب کے دائرے میں رہ کر کی جاتی تھی۔ 1990ء کی دہائی میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی سخت سیاسی حریف تھیں، ایک دوسرے پر تنقید کے ساتھ انتقامی سیاست بھی عام تھی لیکن پھر دو سابق وزرائے اعظم محترمہ بینظیر بھٹو اور میاں نواز شریف نے میثاقِ جمہوریت پر دستخط کر کے انتقامی سیاست کو دفن کرنے کے بنیاد رکھ دی اور سیاسی مخالفت کے باوجود جمہوریت پر شب خون نہ مارنے کا اعادہ کیا، اگرچہ محترمہ کی شہادت کے بعد اس میثاق پر من و عن عمل تو نہ ہو سکا لیکن دونوں جماعتوں کی تلخی اس سے کسی قدر کم ضرور ہو گئی۔
2018ء کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی نے نے تبدیلی کا نعرہ لگایا‘ نوجوانوں میں یہ کافی مقبول ہوئی اور بالآخر یہ اقتدار میں آگئی۔ یہاں تک تو معاملات ٹھیک تھے لیکن اسی دوران سوشل میڈیا نے زور پکڑا اور ہرکوئی 'دانشور‘ بن بیٹھا۔ معاملہ اس وقت بگڑا جب پاکستانی قوم کو پتا چلاکہ سوشل میڈیا سے بھی ڈالر کمائے جا سکتے ہیں۔ بس پھر کیا تھا‘ سوشل میڈیا پر اپنی پوسٹس وائرل کرنے کے لیے لوگ ہر حد تک جانے کو تیار ہو گئے اور منفی باتوں کا سہارا لیا جانے لگا۔ آہستہ آہستہ یہ وبا سیاسی کارکنوں میں بھی پھیل گئی اور پھر سماجی رابطے کی ویب سائٹس کو مخالفین پر کیچڑ اچھالنے کا ذریعہ بنا لیا گیا۔ ایک دوسرے کے خلاف نازیبا ٹرینڈز کا استعمال عام ہوا، بات گالم گلوچ تک پہنچ گئی اور پھر یہ ٹرینڈ سوشل میڈیا سے عوامی مقامات تک بھی پہنچ گئے۔ کچھ مشتعل اور جذباتی افراد نے حریف سیاسی جماعتوں کے لیڈران کو پبلک مقامات پر طنز و تضحیک کا نشانہ بنانا، آوازے کسنا، نعرہ بازی کرنا حتیٰ کہ گالیاں تک دینا شروع کر دیں جس سے ملکی سیاست سے اخلاقیات کا جنازہ ہی اٹھ گیا‘ ماضی کی روشن سیاسی اقدار دفن ہو گئیں اور انتقامی سیاست کا غلبہ ہو گیا۔
ہمارے سیاستدان بھی ملازمت کے خواہشمند اس نوجوان کی طرح الیکشن میں کامیابی چاہتے ہیں جو نقل کر کے انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کرنا چاہتا تھا مگر ایماندار ممتحن آ جانے سے اس کے خواب چکنا چور ہو گئے۔ اکثر سیاسی امیدوار الیکشن جیتنے کیلئے محنت سے زیادہ نقل پر یقین رکھتے ہیں اور اپنی کارکردگی کے بجائے دوسروں پر طنز و تنقید کرکے عوام میں اپنی جگہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ انتخابی مہم میں صرف سیاسی منشور پر بات کی جائے، اخلاقیات کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا جائے، سیاسی اقدار کا خیال رکھا جائے، تنقید کرتے ہوئے بھی الفاظ کا چنائو درست ہونا چاہئے کیونکہ ہماری نوجوان نسل اپنے سیاسی رہنمائوں کو فالو کرتی ہے اور ان کی ہر بات کو اہمیت دیتی ہے، لہٰذا سیاسی جماعتوں کو چاہئے کہ اپنے کارکنوں کو اس بات کا پابند بنائیں کہ سوشل میڈیا سمیت ہر پلیٹ فارم پر اخلاقیات کے دائرے میں رہتے ہوئے اختلاف کریں۔