یہ ایک مصدقہ عالمی حقیقت ہے کہ وہ ملک کبھی ترقی و خوشحالی کی منازل طے نہیں کر سکتا جہاں عام آدمی کے لیے انصاف تک رسائی مشکل ہو، جہاں کمزور طبقات خصوصاً خواتین، بچوں اور معذور افراد کے بنیادی انسانی حقوق محفوظ نہ ہوں، جہاں اس جدید دور میں بھی خواتین کو گھریلو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہو، صنفی تفریق زیادہ ہو اور معاشرے کے کمزور طبقات کو بے جا پابندیوں کا سامنا ہو۔ ترقی کی منازل وہی ممالک طے کرتے ہیں جہاں تمام طبقات کو یکساں مواقع میسر ہوں، جہاں خواتین مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی ہوں اور سب کو بلاتفریق آئینی و قانونی تحفظ حاصل ہو۔
معاشرے میں خواتین کے ساتھ ہونے والا برتائو زمانہ قدیم ہی سے مختلف معاشروں اور تہذیبوں میں زیر بحث رہا ہے۔ دنیا کی آدھی آبادی اس وقت عورتوں پر مشتمل ہے اور انسانی زندگی کا دارو مدار جتنا مردوں پر ہے‘ اتنا ہی عورتوں پر بھی ہے جبکہ فطری طور پر عورتیں انتہائی اہم امور سنبھالتی ہیں۔ عملِ پیدائش اور تربیتِ اولاد میں سراسر کردار عورتوں کا ہے جس کی اہمیت سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا۔ قدیم زمانے سے ہی مختلف معاشروں میں مفکرین کی سطح پر‘ اسی طرح مختلف قوموں کی رسوم و روایات اور عادات و اطوار میں خواتین پر توجہ دی جاتی رہی ہے۔ دینِ اسلام میں بھی خواتین کو آبگینوں سے تشبیہ دیتے ہوئے ان کے معاملات میں خصوصی نرمی سے کام لینے کی ہدایت کی گئی ہے۔
اگر ہم اپنے ہمسایہ ملک افغانستان میں خواتین کی حالت کا جائزہ لیتے ہیں تو تسلی بخش صورتحال نظر نہیں آتی۔ افغانستان میں طالبان کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد سے خواتین کی مشکلات میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ کبھی طالبان حکومت نے ملک میں مخلوط تعلیمی نظام پر پابندی عائد کر کے عورتوں پر جدید تعلیم کے دروازے بند کیے تو کبھی کام کرنے والی خواتین کو نوکری کرنے سے منع کیا گیا۔ کبھی بازاروں اور پارکس میں خواتین کے اکیلے جانے پر پابندی لگائی گئی تو کبھی ان کے لباس پر انہیں تشدد اور تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ افغانستان کی خواتین کو تعلیم، کام کرنے، باہر جانے حتیٰ کہ ان کی شناخت کے حقوق سے بھی محروم کر دیا گیا ہے۔ ایسے مناظر بھی دیکھنے کو ملے جب تن تنہا لڑکی مسلح طالبان کے سامنے احتجاج پر مجبور ہو گئی۔ ایسا بھی دیکھنے کو ملا کہ مردوں کا لباس زیب تن کر کے ایک طالبہ ہرات یونیورسٹی پہنچ گئی۔ افغانستان میں پہلے تو طالبان اہلکار لڑکیوں کے بیگ اور سکارف کے رنگ کی بنا پر انہیں تعلیمی اداروں میں داخل نہیں ہونے دیتے تھے مگر اب یہ صورتحال ہے کہ خواتین پردے میں ملبوس ہو کر بھی یونیورسٹی کا گیٹ عبور نہیں کر سکتیں، ان پر تعلیم اور نوکریوں کے دروازے مکمل طور پر بند ہو چکے ہیں۔ افغان سرزمین سے چند ایسی وڈیوز بھی سامنے آئی ہیں جن میں کبھی طالبان برقع میں ملبوس خواتین کو بطور سزا ہنٹر سے مارتے نظر آتے ہیں تو کبھی احتجاج کرتی خواتین پر تشدد ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ اگرچہ افغانستان کی طالبان حکومت نے عالمی برادری کو متعدد بار یقین دہانی کرائی ہے کہ خواتین کی تعلیم اور کام کے حوالے سے پابندیوں کو ختم کیا جا رہا ہے مگر ہر بار ان پابندیوں میں اضافے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا جاتا ہے۔
اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یو این ڈی پی نے افغانستان کے حوالے سے ایک تفصیلی رپورٹ جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں خواتین کی بحالی بین الاقوامی امداد پر منحصر ہے۔ اگست 2021ء میں افغان حکومت کی تبدیلی کے بعد سے خواتین کے حقوق کی تنزلی اور بینکنگ کا نظام تباہ ہونے کے قریب ہے، افغان معیشت 2020ء سے اب تک مجموعی طور پر 27 فیصد سکڑ چکی ہے اور تاحال اس کی بحالی نہیں ہوئی اور ایسا لگتا ہے کہ یہ بہت کم سطح پر مستحکم ہو رہی ہے، جس کی بڑی وجہ بینکنگ سیکٹر پر پابندیاں، تجارت میں رکاوٹیں، کمزور اور الگ تھلگ عوامی ادارے اور تقریباً کوئی غیر ملکی سرمایہ کاری، زراعت اور پیدواری شعبے کے لیے ڈونر سپورٹ نہ ہونا ہے۔ سرکاری ادارے خاص طور پر اقتصادی شعبے خواتین ملازمین سمیت تکنیکی مہارت اور صلاحیتوں سے محروم ہو رہے ہیں، جس سے صورتحال مزید خراب ہو رہی ہے۔ کچھ شعبوں میں استحکام اور سلامتی کو برقرار رکھنے، افیون کی پیداوار اور غیر قانونی تجارت کو کنٹرول کرنے میں پیش رفت ہوئی ہے؛ تاہم یہ ملکی ترقی کی رفتار کو تبدیل کرنے کے لیے ناکافی ہے۔ خواتین کو نہ صرف عوامی مقامات تک محدود رسائی حاصل ہے بلکہ وہ اب کم کھانا کھاتی ہیں اور آمدنی کے حوالے سے بھی انہیں مردوں کے مقابلے میں عدم مساوات کا سامنا ہے۔ تمام شعبوں میں کام کرنے والی خواتین کا تناسب ڈرامائی طور پر کم ہوا ہے جو 2022ء میں 11 فیصد تھا مگر 2023ء میں صرف 6 فیصد رہ گیا۔
شمالی کوریا کی صورتحال بھی زیادہ مختلف نہیں ہے، شمالی کوریا میں خواتین کے حوالے سے درست تصویر آج تک دنیا کے سامنے واضح نہیں ہو سکی کیونکہ عالمی سطح پر شمالی کوریا سفارتی تنہائی کا شکار ہے۔ شمالی کوریا کے اربابِ اختیار کو یہ بات پسند نہیں کہ وہ عالمی مبصرین کو ملک کے حالات کا جائزہ لینے کے مواقع فراہم کریں۔ سرکاری و نیم سرکاری ذرائع، سیاسی پناہ لے کر ملک سے فرار ہونے والے، جنوبی کوریا، مغربی ذرائع ابلاغ اور اس کے علاوہ کچھ بیرونی مطالعاتی ادارہ جات سے شمالی کوریا میں خواتین کے مسائل کی خبریں گاہے گاہے سامنے آتی رہتی ہیں۔ شمالی کوریا کا سرکاری موقف سنا جائے تو اس کے مطابق ملک میں خواتین کو مردوں کے مساوی حقوق حاصل ہیں‘ کئی ایسے قوانین رائج ہیں جو صنفی برابری اور مزدوری میں مساوات اور خواتین کو بااختیار بنانے کے عظیم مقصد کی تکمیل کی کوشش کرتے ہیں۔ شمالی میں کئی اصلاحات کو بھی بہ روئے کار لانے کی کوشش کی گئی، جن کا مقصد صنفی برابری کے اصول کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرنا ہے۔ غیر جانبدار ذرائع ان اصلاحات میں کامیابی کے حوالے سے منقسم نظر آتے ہیں۔ اگر سیمینار کی بات کی جائے تو مقررین نے شمالی کوریا میں خواتین کی زندگی کو خاصا کٹھن قرار دیتے ہوئے بتایا کہ وہاں عورتوں کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک کیا جاتا ہے‘ گھریلو تشدد عام ہے‘ معاشرتی طور پر بھی سخت تفرقہ اور استحصال پایا جاتا ہے۔ خواتین کو ہراساں کرنا، ان کے ساتھ نازیبا رویہ اختیار کرنا اور بعض اوقات آبرو ریزی کا نشانہ بنانا بھی کوئی بڑی بات نہیں سمجھی جاتی۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ محض تنقید کے بجائے عالمی سطح پر خواتین سمیت تمام کمزور طبقات کے حقوق کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں اور اس کیلئے ترقی یافتہ ممالک کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ بحیثیت ہمسایہ ملک ہم افغان خواتین کی فلاح و بہبود ، تعلیم، صحت اور بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی کیلئے افغان حکومت کے ساتھ مل کر مختلف پروگرام شروع کر سکتے ہیں؛ تاہم اس کیلئے سب سے پہلے افغان عوام میں شعور بیدار کرنے اور انہیں مستند اسلامی تعلیمات کے مطابق عورت کے مقام سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح شمالی کوریا کی خواتین کیلئے جنوبی کوریا، چین اور دیگر علاقائی ممالک مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں۔