عالمی عدالت انصاف فیصلے پر عملدرآمد بھی کرائے

انصاف وہی ہوتا ہے جو ہوتا ہوا نظر بھی آئے، اور عدالتی فیصلہ وہی بہتر ہوتا ہے جس پر عمل درآمد بھی ہو۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب سہیل ناصر راولپنڈی میں کنزیومر کورٹ کے جج بنے تو انہوں نے عام لوگوں بڑا ریلیف دیا، وہ عدالت‘ جسے کبھی کسی نے اہمیت ہی نہیں دی تھی‘ اسی عدالت کے ایک فرض شناس جج نے جب عام آدمی کی چھوٹی چھوٹی شکایات پر بڑے بڑے تجارتی اداروں، صنعتوں، ہائوسنگ سوسائٹیوں اور دیگر کاروباری فرموں کے خلاف نہ صرف فیصلے دینا شروع کیے بلکہ اپنے فیصلوں پر سو فیصد عمل درآمد کروا کر لوگوں کو ریلیف بھی دلایا تو اس عدالت کی ایسی دھاک بیٹھی کہ کوئی بھی اپنے کسٹمر کے ساتھ فراڈ یا چالاکی کرنے سے پہلے ہزار بار سوچتا تھا کہ کہیں اسے ایک ہزار روپے کی بچت پر ایک لاکھ روپے ہرجانہ ادا نہ کرنا پڑ جائے۔
دنیا کی سب سے بڑی عدالت ''انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس‘‘ (آئی سی جے) کا غزہ کی صورتِ حال پر جو فیصلہ آیا ہے‘ اس میں اسرائیل کو فلسطینیوں کی نسل کشی روکنے کا حکم دیا گیا ہے لیکن اسرائیل نے عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کی دھجیاں بکھیرکر رکھ دی ہیں، غزہ پہ اسرائیلی حملوں میں کوئی کمی نہیں آئی بلکہ صہیونی فورسز نے غزہ کے رہائشی علاقوں پر بمباری ایک بار پھر تیز کر دی ہے جس کے نتیجے میں گزشتہ دو دنوں میں مزید 357 سے زائد فلسطینی شہید اور 500 سے زائد زخمی ہو گئے۔ اسرائیلی فوج نے خان یونس، النصر ہسپتال اور رفح کے اطراف میں علاقوں کو نشانہ بنایا۔ اسرائیل نے خان یونس میں دو اہم ہسپتالوں کے قریب شدید فضائی حملے کیے۔ اسرائیلی فوج نے گزشتہ ایک ہفتے سے خان یونس کے الامل ہسپتال کا محاصرہ کیا ہوا ہے اور النصر ہسپتال کے آرتھو پیڈک سرجری ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ ڈاکٹر بسام کو اغوا کر لیا ہے۔ دوسری جانب غزہ میں تیز بارش کے بعد سردی میں اضافے سے جنگ سے تباہ حال فلسطینیوں کی مشکلات خاصی بڑھ گئی ہیں۔ رفح میں 13 لاکھ سے زائد فلسطینی کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبور ہیں، شہریوں کو گرم لباس، غذا اور ٹینٹوں کی کمی کا سامنا ہے، اسرائیلی فوج نے ہسپتالوں کی ناکہ بندی کر کے ادویات کی سپلائی بھی بند کر دی ہے۔
ادھر اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے مسلم ممالک کے خلاف ایک نیا محاذ کھول لیا ہے۔ نیتن یاہو نے قطر پر حماس کی سرپرستی کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ دوحہ نے حماس کی ساری قیادت کو پناہ دے رکھی ہے، قطری حکومت چاہے تو تمام اسرائیلی یرغمالی رہا ہو سکتے ہیں۔ نیتن یاہو کا عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر ردعمل میں کہنا تھا کہ اسرائیل بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کرتے ہوئے اپنا اور اپنے شہریوں کا دفاع جاری رکھے گا، اسرائیلی کو اپنے دفاع کا پورا اختیار حاصل ہے، نسل کشی کا الزام جھوٹا اور اشتعال انگیز ہے، ہماری جنگ حماس کے خلاف ہے اور اسرائیل حماس کے خلاف جنگ جاری رکھے گا۔ اسرائیلی وزیر خزانہ نے کہا ہے کہ غزہ پر اسرائیلی فوج کا کنٹرول رہے گا، غزہ میں سول معاملات کی نگرانی اسرائیلی فوج کرے گی، اسرائیلی یرغمالیوں کو واپس لانا مشکل ہے اس سے جنگ رک سکتی ہے، غزہ میں حماس کے ساتھ معاہدے میں اسرائیل کے جنگی منصوبے ناکام ہوں گے۔
عالمی عدالت نے جمعہ کے روز اپنے فیصلے میں اسرائیل کو حکم دیا تھا کہ وہ فلسطینیوں کے خلاف نسل کشی کو روکے اور شہریوں کی مدد کے لیے مزید اقدامات کرے؛ تاہم اپنے فیصلے میں عدالت نے جنوبی افریقہ کی درخواست کے برعکس جنگ بندی کا حکم دینے سے گریز کیا۔ فیصلہ سناتے ہوئے عالمی عدالت انصاف کے 17 رکنی پینل میں سے 16 ججز موجود تھے اور صدر عالمی عدالت انصاف نے عبوری فیصلہ سنایا۔ عالمی عدالت انصاف نے جنوبی افریقہ کے مطالبات درست قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی فوج کی بمباری سے 25 ہزار سے زائد فلسطینی مارے جا چکے ہیں، اسرائیل نے فلسطینیوں کو گھر بار چھوڑنے پر مجبور کیا ہے، غزہ کے20 لاکھ سے زائد لوگ نفسیاتی اور جسمانی تکالیف میں مبتلا ہیں، اسرائیل عالمی عدالت کے دیے گئے احکامات پر عمل کر کے ایک ماہ میں رپورٹ جمع کرائے۔ عدالت نے مقدمے کی سماعت نہ کرنے اور جنوبی افریقہ کی درخواست خارج کرنے کی اسرائیلی استدعا مسترد کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کو نسل کشی کنونشن کے تحت اس مقدمے کی سماعت کا اختیار ہے۔ عالمی عدالت کی صدر جون ای ڈونوغیے نے فیصلہ پڑھتے ہوئے کہا کہ عدالت غزہ میں رونما ہونے والے انسانی المیے سے آگاہ ہے اور وہاں مسلسل انسانی جانوں کے ضیاع پر تحفظات رکھتی ہے۔ نیدرلینڈز کے شہر دی ہیگ میں قائم عالمی عدالت نے جنوبی افریقہ کی درخواست پر دلائل سننے اور اسرائیل کا جوابی مؤقف سامنے آنے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ عالمی عدالت انصاف کے مطابق جنوبی افریقہ کی جانب سے غزہ میں نسل کشی کے حوالے سے کافی مواد جمع کرایا گیا۔ عدالت نے جنوبی افریقہ کی جانب سے عبوری اقدامات کیے جانے کے مطالبے کو بھی درست قرار دیا۔
فیصلے کے بعد عالمی عدالت انصاف کے باہر جنوبی افریقہ کی وزیر خارجہ نالیڈی پنڈور کا کہنا تھا کہ آئی سی جے کا فیصلہ خوش آئند ہے، اسرائیل عام شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنائے، عالمی عدالت کے فیصلے پر عمل درآمد کا مطالبہ کرتے ہیں، اتحادی ممالک اسرائیل کو جنگ بندی پر آمادہ کریں، حماس تمام یرغمالیوں کی رہائی کو یقینی بنائے۔ اس حوالے سے فلسطینی وزارتِ خارجہ نے کہا کہ یہ فیصلہ اس بات کی یاددہانی ہے کہ کوئی ریاست قانون سے بالاتر نہیں ہے۔ پاکستان، قطر، سعودی عرب اور فلسطین سمیت دنیا بھر سے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا گیا ہے۔ حماس کا کہنا ہے کہ فیصلے سے اسرائیل مزید تنہا ہو گا، دوسری جانب امریکہ اور یورپی یونین کا غزہ سے متعلق منفی کردار بھی سامنے آ گیا ہے، عالمی برادری میں اسرائیل اب واضح طور پر بے نقاب ہو چکا ہے۔ اقوام متحدہ کے اعلیٰ حکام کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے خلاف عالمی عدالت انصاف کا فیصلہ اتحادیوں کے لیے مسائل پیدا کرے گا، اسرائیل کے حمایتیوں کو اس کے دفاع میں شرمندگی ہو گی۔ عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل پریذیڈنسی نے کہا ہے کہ کونسل کا آئندہ ہفتے ہونے والا اجلاس آئی سی جے کے اسرائیل کے غزہ میں نسل کشی بند کرنے کے مطالبے کے فیصلے پر ہو گا۔ بدھ کو ہونے والا یہ اجلاس الجزائر کی درخواست پر طلب کیا گیا جس کی وزارتِ خارجہ کا کہنا ہے کہ یہ اجلاس عالمی عدالت انصاف کے فیصلے اور ان اقدامات‘ جن کا اسرائیل کو پابند بنایا گیا ہے‘کی حمایت کا عکاس ہو گا۔ 7 اکتوبر 2023ء سے غزہ پر اسرائیلی حملوں میں اب تک کم از کم 26 ہزار 257 افراد شہید جبکہ 64 ہزار 797 سے زائد زخمی ہوچکے ہیں۔ عالمی ادارے اور غزہ حکام خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ بہت سے زخمی اور شہدا ابھی تباہ حال عمارتوں کے ملبے تلے دبے ہوئے ہیں، عالمی امداد بالخصوص طبی امداد کی بندش کی وجہ سے اموات کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
گزشتہ کالم میں بھی کہا تھاکہ عالمی عدالت انصاف کا فیصلہ فلسطینیوں کیلئے بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہو گا، عالمی ردعمل اس کو درست ثابت کر رہا ہے؛ تاہم اس فیصلے پر سو فیصد عمل درآمد بھی ضروری ہے، اگر آئی سی جے کے فیصلے پر اس کی روح کے مطابق عمل درآمد ہو جاتا ہے تواس سے فلسطینیوں کی نسل کشی تھم جائے گی اور خطے میں دوبارہ امن قائم ہونے کی راہ ہموار ہو گی لیکن اگر خدا نخواستہ اس اہم فیصلے پر عملدرآمد نہیں ہوتا اور اسرائیل اسے رد کر دیتا ہے تو پھر اقوام متحدہ کی طرح عالمی عدالت انصاف کی ساکھ پر بھی حرف آئے گا اور لوگوں کا اس پر سے اعتماد ختم ہو جائے گا اور یہ ادارہ محض ایک علامت بن کر رہ جائے گا جبکہ اس سے طاقتور ممالک کو کمزور ریاستوں پر قبضے اور حملوں کیلئے مزید حوصلہ ملے گا۔ اس سے پوری دنیا کا امن مزید خطرات سے دوچار ہو گا اور خطے میں طاقت کا توازن بگڑ کر رہ جائے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں