کھیلوں کی بنیادی سہولیات ناکافی، کئی منصوبے ادھورے
شہید طورسم خان سکواش اکیڈمی نا مکمل ،ٹینس کورٹ کی حالت قابلِ رحم ، پلیئر ز ہاسٹل کا منصوبہ بھی انتظامی غفلت کی نذر ، ہاکی سٹیڈیم کا بھی برا حال ، کھلاڑیوں کو تشویش
فیصل آباد (ذوالقرنین طاہر سے )فیصل آباد میں سال 2025 بھی کھیلوں کے ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے مایوس کن ثابت ہوا۔ نیشنل اور انٹرنیشنل سطح پر نمایاں کارکردگی دکھانے والے کھلاڑی موجود ہونے کے باوجود شہر میں کھیلوں کی بنیادی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں، جبکہ اربوں روپے کی لاگت سے شروع کیے گئے متعدد منصوبے ادھورے رہ کر سرکاری خزانے پر بوجھ بن چکے ہیں۔ الفتح سپورٹس کمپلیکس میں واقع شہید طورسم خان سکواش اکیڈمی، جس کی تعمیر کے لیے 3 کروڑ 5 لاکھ روپے کا تخمینہ لگایا گیا تھا، پر 2 کروڑ روپے سے زائد رقم خرچ ہونے کے باوجود منصوبہ ادھورا چھوڑ دیا گیا، جو اب کھنڈرات کا منظر پیش کر رہا ہے۔
اسی طرح 2 کروڑ 72 لاکھ روپے کی لاگت سے شروع کیے گئے ٹینس کورٹ کی حالت بھی قابلِ رحم ہو چکی ہے ۔ جھنگ روڈ پر 9 کروڑ 85 لاکھ روپے کی لاگت سے تعمیر کیے جانے والے سنتھیٹک ایتھلیٹک ٹریکس اور 1 کروڑ 15 لاکھ روپے کی لاگت سے پلیئر ز ہاسٹل کا منصوبہ بھی انتظامی غفلت کی نذر ہو گیا۔ ٹریکس کی تعمیر میں مبینہ کرپشن کے باعث ناقص میٹریل استعمال کیا گیا، جس کے نتیجے میں چند ماہ بعد ہی ٹریک کی بالائی سطح اکھڑ گئی۔کروڑوں روپے کی لاگت سے تعمیر کیے گئے قومی کھیل کے واحد ہاکی سٹیڈیم کی حالت زار بھی اربابِ اختیار کی بے حسی کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ سٹیڈیم کی آسٹرو ٹرف مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہے ، جنگلے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں اور دیواروں میں دراڑیں پڑ چکی ہیں۔
پنجاب سپورٹس بورڈ نے سٹیڈیم کے اندر ٹرف تبدیل کرنے کے بجائے باہر نئی ٹرف بچھا کر نیا گراؤنڈ تیار کر دیا، جسے کھلاڑیوں اور سپورٹس حلقوں نے ناقابلِ فہم قرار دیا ہے ۔فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے قومی کرکٹر محمد آصف، کبڈی کھلاڑی مشرف جاوید جنجوعہ، لالہ عبید اللہ، ملک بنیامین، ایتھلیٹکس میں تیز ترین خاتون ایتھلیٹ انیلہ گلزار، ہاکی میں صدارتی ایوارڈ حاصل کرنے والے اولمپئن رانا مجاہد، باکسنگ کے نیشنل چیمپئن طلحہ بشیر، نیشنل ویمن باکسنگ چیمپئن شپ کی فاتح معظمہ علی اور نیشنل سوئمنگ چیمپئن شپ کے فاتح محمد حمزہ سمیت درجنوں کھلاڑی ملکی و بین الاقوامی سطح پر شہر کا نام روشن کر چکے ہیں۔کھلاڑیوں کا کہنا ہے کہ فیصل آباد میں کھیلوں کی سہولیات نہ ہونے کے باعث کھیل جاری رکھنا بھی مشکل ہو چکا ہے ۔ سال 2025 اختتام کے قریب ہے ، مگر برسوں سے شروع کیے گئے کھیلوں کے منصوبے تاحال ادھورے پڑے ہیں، جس پر اسپورٹس حلقوں میں شدید تشویش پائی جاتی ہے ۔