اپنے ٹویٹ میں وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی نے دھان کی فصل کے ویسٹ کو بطور ایندھن استعمال کا مشورہ دے دیا۔ اِس کے لیے پی سی ایس آئی آر کے پاکستانی سائنسدان پوری طرح سے تیار ہیں جو فصلوں کی باقیات سے ماحول دوست ایندھن بنانے کا پلانٹ تیار کر چکے ہیں۔
پاکستان میں بھی ہر سال فصلوں کی 19 ملین ٹن باقیات کو نذر آتش کیا جاتا ہے۔ صورتحال کے پیش نظر پنجاب میں اِس پر پابندی عائد کی جا چکی ہے۔ دوسری طرف محکمہ زراعت کا کہنا ہے بہترین طریقہ یہ ہے کہ دھان کے ڈنٹھل کو کاٹ کر زمین میں ملا دیا جائے۔ مڈھوں کی تلفی کے لئے گہرا ہل چلایا جائے۔ روٹا ویٹر یاڈسک ہیرو کے استعمال سے دھان کے مڈھوں کو چھوٹے ٹکڑوں میں تبدیل کر کے زمین میں ملا دیا جائے۔ اس طرح باقیات بھی ٹھکانے لگ جائیں گی اور زمین کی زرخیزی بھی بڑھے گی۔
دوسری طرف کاشتکاروں کو شکایت ہے کہ حکومت ان سے صرف سموگ کے دنوں میں رابطہ کرتی ہے۔ اگلی فصل کیلئے کھیتوں کی صفائی ضروری ہوتی ہے۔ جدید مشینیں اتنی مہنگی ہیں جو ان کی پہنچ سے باہر ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے حکومت کو اس سلسلے میں ایک قدم آگے بڑھانا ہوگا اور ان مشینوں پر سب سبسڈی دینا ہوگی۔ پی سی ایس آئی آر کے ماہرین کے مطابق اُنہوں نے کاشتکاروں کی ایسی ہی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنا پراجیکٹ مکمل کیا ہے۔
ترقی یافتہ ممالک میں بھی اس مسئلے کے حل کے لیے مشینوں سے ہی کام لیا جاتا ہے جن کے ذریعے دھان یا گندم کے بھوسے کے بنڈل بنا لیے جاتے ہیں۔ انہیں شہروں میں چارے کے طور پر استعمال میں لایا جاتا ہے۔
اس بھوسے سے بائیو ایندھن بھی بنایا جا سکتا ہے۔ بائیو ریفائنری میں بھوسے کے ذریعے اعلیٰ معیار کا ایندھن بھی تیار کیا جا سکتا ہے جو گاڑیوں میں استعمال ہوتا ہے۔
پاکستانی سائنسدانوں کے مطابق اِس پر بھی کام ہو رہا ہے لیکن اتنا ضرور ہے کہ اُن کے پلانٹ سے تیار کیے گئے ایندھن کو بڑے پیمانے پر فیکٹروں میں استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔
احسن بات تو یہ بھی ہے کہ فصلوں کی باقیات سے ایندھن کی تیاری کے بعد بچ رہنے والی راکھ کو بھی زمین کی زرخیزی کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہی عوامل وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی طرف سے بھارت کو مدد کی پیشکش کرنے کے محرک بنے ہیں۔