مصنوعی بارش کیا ہے اور سموگ کیخلاف کس حد تک فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے؟

لاہور: (فرحان نذیر) سموگ کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے بعد لاہور کا مجموعی ایئر کوالٹی انڈیکس 300 سے بھی تجاوز کر گیا ہے اور محکمہ موسمیات کے مطابق دسمبر کے وسط تک قدرتی طور پر بارش کے امکانات بھی بہت کم ہیں، اس صورتحال کے پیش نظر نگران پنجاب حکومت کی جانب سے مصنوعی بارش برسانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

حکومت کی جانب سے 28 اور 29 نومبر کو مصنوعی بارش کیلئے ماہرین کی کمیٹی بھی تشکیل دیدی گئی ہے، ٹیکنیکل کمیٹی کے ممبر اور پنجاب یونیورسٹی انسٹیٹیوٹ آف جیوگرافی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر منور صابر نے کہا کہ مصنوعی بارش پہلے سے موجود بادلوں پر نمک چھڑک کر برسائی جا سکتی ہے، ایک بار بارش برسانے کیلئے 4 کروڑ روپے خرچ آئے گا۔

ڈاکٹر منور صابر نے مزید بتایا کہ مصنوعی بارش سے موسمیاتی سسٹم پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، چونکہ سموگ ہر سال شہر پر چھاتی ہے جس کی وجہ سے "مین میڈ" بارش کی ہر سال ضرورت ہوگی۔واضح رہے کہ پنجاب یونیورسٹی انسٹیٹیوٹ آف جیوگرافی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر منور صابر نے تین سال پہلے مصنوعی بارش کرنے کا تصور پیش کیا تھا اور خانپور میں اس کا تجربہ بھی کیا گیا۔

مصنوعی بارش کیسے برستی ہے؟

مصنوعی بارش برسانے کا عمل بھی کافی دلچسپ ہے جس میں پہلے بادلوں کو کیمیکل کے ذریعے بھاری کیا جاتا ہے، مصنوعی بارش کلاؤڈ سیڈنگ تکنیک کے ذریعے ہوتی ہے، خصوصی ہوائی جہاز کے ذریعے دو سے چار ہزار فٹ کی بلندی سے بادلوں کے اوپر سوڈیم کلورائیڈ، سلور آئیوڈائیڈ اور دیگر کیمیکل چھڑکے جاتے ہیں، ان کیمیکلز کی وجہ سے بادلوں میں برفیلے کرسٹلز بنتے ہیں اور بادل بھاری ہو جاتے ہیں اور برسات ہونے لگتی ہے۔

Cloud seeding یا مصنوعی بارش کے لیے جہاز کے ذریعے بادلوں پر کیمیکل چھڑکنے کے علاوہ زمین سے بھی راکٹ فائر کر کے ان پر کیمیکل چھڑکا جا سکتا ہے، یہ طریقہ کار زیادہ تر چین میں استعمال کیا جاتا ہے یعنی مطلوبہ کیمیائی مادوں کے راکٹ تیار کر کے انہیں بادلوں پر فائر کیا جاتا ہے اور اس طریقے سے مصنوعی بارش برسائی جاتی ہے۔

ہر بادل مصنوعی بارش کے لیے موزوں نہیں، نہ ہر موسم میں یہ برسات ہو سکتی ہے، اس کے لیے خاص ماحول درکار ہوتا ہے، ماحولیاتی ماہرین کے مطابق دس میں سے تین قسم کے بادلوں میں مصنوعی بارش کا تجربہ کیا جاسکتا ہے، ایسے بادلوں کو مصنوعی بارش کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے جن کی تہہ 7 سے 10 ہزار فٹ موٹی ہو۔

مصنوعی بارش کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ہوا میں رطوبت یعنی نمی 70 سے 75 فیصد ہو اور ہوا کی رفتار 30 سے 50 کلومیٹر فی گھنٹہ ہو، ان سارے عوامل کی موجودگی میں ہی مصنوعی بارش کا تجربہ مکمل طور پر کامیاب ہو سکتا۔

یہ بھی پڑھیں: سموگ تدارک کیلئے چین کے ماہرین ماحولیات کی خدمات لینے کا فیصلہ

دو امریکی سائنس دانوں ونسنٹ شیفر اور برنارڈ وونیگو نے 1946ء میں پہلی مرتبہ مصنوعی بارش کرانے میں کامیابی حاصل کی تھی، انہوں نے ڈرائی آئس کا استعمال کرکے کامیاب کلاؤڈ سیڈنگ کی تھی۔ آج دنیا کے 50 سے زائد ملکوں میں کلاؤڈ سیڈنگ کے پروگرام چل رہے ہیں، امریکا، چین، مالی، تھائی لینڈ، متحدہ عرب امارات جیسے ممالک خشک سالی کا مقابلہ کرنے کے لیے بھی اس کا استعمال کر رہے ہیں۔

نقصانات

مصنوعی بارش جہاں فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے وہیں اس کے نقصانات بھی ہیں، پہلی بات تو یہ کہ بادلوں کو برسایا تو جا سکتا ہے لیکن وہ اپنی مرضی سے ہی رکیں گے،  دوسری بات اس سے ماحول پر غیر فطری دباؤ بڑھ جاتا ہے، شدید حبس اور گرمی بڑھ سکتی ہے، چونکہ اس بارش کے پانی میں کیمیائی مادے شامل ہوتے ہیں اس لیے یہ پانی انسانی صحت کے لیے نقصان دہ بھی ثابت ہو سکتا ہے۔

مصنوعی بارش برسانے کے اس عمل میں بہت سے کیمیکلز استعمال ہوتے ہیں، جن میں کاربن ڈائی آکسائیڈ، کیلشیم کلورائیڈ، پوٹاشیم کلورائیڈ، سوڈیم ہائیڈرو آکسائیڈ، ایلومینیم آکسائیڈ اور زنک شامل ہیں، تاہم ان میں سب سے زیادہ مہلک سلور آیوڈائیڈ ہے، تنزانیہ میں پانی اور انسانی مسائل پر تحقیق کرنے والی ڈاکٹر وکٹوریہ نگومو کا کہنا ہے کہ مصنوعی بارش سے بہت سے بیماریاں جنم لیتی ہیں، جن میں ایڈز، ملیریا، کینسر جیسے مہلک امراض شامل ہیں۔

یونیورسٹی آف کیلی فورنیا کی تحقیق کے مطابق پانی میں حل نہ ہونے والا سلور آیوڈائیڈ ایک زہریلا مادہ ہے جو پانی کو آلودہ کردیتا ہے، تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ یہ کیمیکل انسانوں، مچھلیوں اور دیگر جانداروں کے لیے زہر کا درجہ رکھتا ہے، یہ کیمیکل جلد، سانس اور منہ کے ذریعے جسم میں داخل ہوتا ہے۔ اس کی کم مقدار بھی نظام انہضام کی خرابی، گردوں اور پھیپھڑوں میں زخم کا سبب بنتی ہے۔

کیا پاکستان میں مصنوعی بارش کرنا ممکن ہے؟

محکمہ موسمیات کے ریجنل ڈائریکٹر شاہد عباس کے مطابق مصنوعی بارش برسانا کوئی مشکل عمل نہیں لیکن اس تجربے کے کامیاب ہونے کے لیے کافی صورتیں ہیں جن کے بغیر مصنوعی بارش برسانا ناممکن ہے، انہوں نے بتایا کہ مؤثر کلاؤڈ سیڈنگ کے لیے کم از کم 40 فیصد بادلوں کا ہونا اور ہوا میں کم سے کم 70 فیصد نمی ہونا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ ہوا کی رفتار بھی بہت معنی رکھتی ہے اور جب تک یہ صورتیں مکمل نہ ہوں تو مصنوعی بارش کا تجربہ کامیاب نہیں ہوسکتا۔

ریجنل ڈائریکٹر محکمہ موسمیات کا کہنا تھا کہ مصنوعی بارش کا تجربہ اگر کامیاب بھی ہو جائے تو اس کو آلودگی ختم کرنے کے لیے مستقل حل تصور نہیں کیا جاسکتا کیونکہ بارش کے بعد آلودگی کم تو ضرور ہو گی مگر اس کی کوئی گارنٹی نہیں کہ اس میں دوبارہ اضافہ نہیں ہوگا۔

دنیا بھر میں مصنوعی بارش کا استعمال

آج دنیا کے 50 سے زائد ملکوں میں کلاؤڈ سیڈنگ کے پروگرام چل رہے ہیں، امریکہ، چین، مالی، تھائی لینڈ، متحدہ عرب امارات جیسے ممالک خشک سالی کا مقابلہ کرنے کے لیے بھی اس کا استعمال کر رہے ہیں۔

2008ء میں بیجنگ اولمپکس کے دوران اس کا استعمال کرکے اس امر کو یقینی بنایا گیا تھا کہ بارش افتتاحی اور اختتامی تقریب کا مزہ خراب نہ کر دے، اس کے لیے کلاؤڈ سیڈنگ تکنیک کی مدد سے وقت سے پہلے ہی بارش کرا لی گئی تھی، اب اس کا استعمال نجی پروگراموں میں بھی ہونے لگا ہے، آج کل کچھ ایونٹ کمپنیاں شادی سے قبل بارش کرانے کا کام بھی کرتی ہیں تاکہ شادی کے دن رنگ میں بھنگ نہ پڑ جائے۔

پاکستان میں تجربات

پاکستان میں مصنوعی بارش کا طریقہ پہلی بار استعمال نہیں کیا جارہا بلکہ آپ کو بتاتے چلیں کہ سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں تھر کے بعض علاقوں میں خشک سالی اور گرمی کم کرنے کے لیے 2000ء میں کچھ تجربات کیے گئے تھے اور یہ تجربات جزوی طور پر کامیاب بھی ہوئے، بہت کم لوگوں کو یہ بات معلوم ہے کہ کراچی میں 1977ء میں بھی مصنوعی بارش کا تجربہ کیا گیا تھا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں