ٹرمپ اسرائیل پر برہم ، جنگ بندی بچانے میں کامیاب : ایران کے پاس تیل کی دو لت ، وہ آگے بڑھنے کا اہل ، حکومت کی تبدیلی نہیں چاہتا : امریکی صدر ، تاریخی فتح ملی : ایرانی صدر

تہران،واشنگٹن(رائٹرز،مانیٹرنگ نیوز) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کو بچانے میں کامیاب ہوگئے ۔ وہ منگل کی صبح جنگ بندی کو ٹوٹتے دیکھ کر شدید برہمی کا اظہار کرتے نظر آئے ۔ٹرمپ نے دونوں فریقین پر تنقید کی، مگر اُن کے تیور خاص طور پر اسرائیل کے لیے سخت تھے ۔
اُنہوں نے کہا: \"ہم نے جیسے ہی معاہدہ کیا، اسرائیل نے فوراً ایران پر چڑھائی کر دی۔ادھر جنگ بندی اور فتح کے اعلان پر ایران میں جشن منایا گیا جبکہ چین روس سمیت دنیا نے جنگ بندی کا خیرمقدم کیا ہے ۔ قبل ازیں اسرائیلی وزیر دفاع نے جنگ بندی کے نفاذ کے چند گھنٹوں بعد ایران کی جانب سے اسرائیل پر میزائل حملے کا الزام لگا کر تہران کو نشانہ بنانے کا حکم دیا تھا، ایرانی فوج کا کہنا ہے اسرائیل نے جنگ بندی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے تین حملے کیے ہیں،ترجمان ایرانی ملٹری کمانڈ نے کہا اسرائیل نے مقامی وقت کے مطابق صبح 9 بجے ایران پرحملہ کیا ہے ۔اسرائیلی فوج کے مطابق تہران کے قریب ایک ریڈار تنصیب کو تباہ کر دیا ہے ،ایرانی میڈیا کے مطابق تہران میں 2 دھماکے سنے گئے جبکہ اسرائیل نے ایران کے شمالی شہر بابلسر پر بھی حملہ کیا ہے ، بابول میں بھی دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں۔جنگ بندی سے قبل ایران کی جانب سے داغے گئے میزائلوں سے 11 اسرائیلی ہلاک اور 30 سے زائد زخمی ہو گئے ، ایرانی میزائل نے ایک عمارت کو نشانہ بنایا جو مکمل تباہ ہو گئی ہے ۔ اسرائیلی فوج نے کہا ایران کی جانب سے ملک پر دو مرحلوں میں میزائل داغے گئے ، پہلی لہر میں دو اور دوسری لہر میں چار میزائل داغے گئے ۔ایران نے جنگ بندی خلاف ورزی کے اسرائیلی دعوے کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ جنگ بندی نافذ ہونے کے بعد اسرائیل پر میزائل حملے کی خبر جھوٹی ہے ۔اسرائیلی میڈیا کا کہنا تھا کہ ایران نے صبح 6 بجے کے بعد حملے نہیں کیے ۔ واضح رہے کہ جنگ بندی کے نفاذ سے محض چند گھنٹے قبل اسرائیل نے ایران پر شدید حملے کیے جن کے نتیجے میں ایک معروف جوہری سائنسدان محمد رضا صدیقی صابر سمیت 9 شہری شہید ہوگئے اور 4 رہائشی عمارتیں تباہ ہو گئیں۔یہ حملے ایران کے شمالی صوبہ گیلان اور تہران کے مختلف علاقوں میں رات کے وقت کیے گئے جنہیں ماہرین نے اس 12 روزہ جنگ کے دوران سب سے شدید حملے قرار دیا ہے ۔خیال رہے چند روز قبل جوہری سائنسدان رضا صدیقی کا 17 سالہ بیٹا تہران میں ان کے گھر پر حملے میں شہید ہو گیا تھا۔ایران نے اسرائیل پر 4 حملوں کے بعدپاکستانی وقت کے مطابق صبح 9 بجے سے جنگ بندی پر عملدرآمد شروع کیا تھا،ایران کی جانب سے فتح اور جنگ بندی اعلان کے بعد
ایرانی شہری جشن مناتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے اور خوشی کا اظہار کیا،ایرانی صدر مسعود پزشکیاں نے تاریخی فتح کا اعلان کرتے ہوئے کہا ایران نے جنگ کامیابی کے ساتھ ختم کردی ہے ۔ایرانی صدر نے قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد آل ثانی کو ٹیلی فون کر کے العدید ایئر بیس حملے پر افسوس کا اظہار کیااور کہا قطر اور اس کے عوام اس کارروائی کا ہدف نہیں تھے ، امید کرتے ہیں کہ دونوں ممالک کے تعلقات ہمیشہ باہمی احترام، خودمختاری کے اصولوں اور احسن اندازِ ہمسائیگی پر قائم رہیں گے ۔امیر قطر نے کہا یہ حملہ اچھے ہمسایہ تعلقات کے اصولوں اور دونوں ممالک کے درمیان قریبی تعلقات کے بالکل منافی ہے حالانکہ قطر ہمیشہ ایران کے ساتھ مکالمے کا حامی رہا ہے اور اس مقصد کے لیے بھرپور سفارتی کوششیں کرتا رہا ہے ۔ایرانی سپاہ پاسداران انقلاب کے سربراہ میجر جنرل پاکپور نے کہا ہے کہ کامیابی اور فتح پر ملت ایران اور شہدا کے اہل خانہ کو مبارکباد پیش کرتا ہوں، ٹرمپ نے ایران کے خلاف دوبارہ جارحیت کی تو منہ توڑ جواب ملے گا۔ کامیابی اور فتح ملت ایران کے اتحاد اور شہدا کی قربانیوں کا نتیجہ ہے ۔ ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے کہا ہماری فوجی کارروائیاں گزشتہ صبح 4 بجے آخری لمحے تک جاری رہیں۔ ایران کی سپریم قومی سلامتی کونسل نے اسرائیل اور اس کے حامیوں کے خلاف جنگ روکنے کے بارے میں بیان میں خبردار کیا ہے کہ مزید کسی بھی جارحیت کا ایران کی جانب سے فیصلہ کن، سخت اور بروقت جواب دیا جائے گا۔ ایرانی عوام کی بیداری، برداشت اور اتحاد کی تعریف کرتے ہوئے بیان میں کہاگیادشمن کی شکست ایرانیوں کے پختہ عزم، سٹریٹجک صبر اور ذلت یا یکطرفہ سمجھوتہ کو قبول کرنے سے انکار کی وجہ سے ہوئی ہے ،بیان میں ایران اور اس کی افواج کو ایران پر حملوں کے جواب میں فیصلہ کن اور نپی تلی کارروائیوں کو بھی سراہا گیا ہے ۔اسرائیلی میڈیا نے بھی جنگ بندی کے آغاز کی تصدیق کر دی اور اسرائیل نے اپنی فضائی حدود بھی کھول دیں ،اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے دعویٰ کیا کہ ایران کے خلاف آپریشن رائزنگ لائن میں اسرائیل نے اپنے تمام اہداف حاصل کر لیے ہیں اور اس سے بھی زیادہ کامیابیاں حاصل کی گئی ہیں۔ادھر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو سے ٹیلی فونک رابطہ کیا، ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیلی وزیراعظم کو ایران پر حملے نہ کرنے کی ہدایت کی، جس کے بعد نیتن یاہو نے مزید حملوں سے گریزکرنے کا فیصلہ کیاہے ۔بیان میں کہا گیا کہ صدر ٹرمپ نے گفتگو کے دوران کہا کہ اسرائیل نے جنگ کے تمام مقاصد حاصل کر لیے ہیں، جبکہ انہوں نے جنگ بندی کی استحکام پر بھی اعتماد کا اظہار کیا۔برطانوی خبر بم مت گرانا، اسرائیل نے معاہدے پر رضامندی ظاہر کرنے کے فوراً بعد بمباری شروع کر دی، اسرائیل اپنے پائلٹس کو واپس بلائے ، ایران پر بمباری کی گئی تو یہ جنگ بندی کی سنگین خلاف ورزی ہوگی۔میں ایران سے بھی خوش نہیں ہوں لیکن اسرائیل سے شدید ناراض ہوں،نیٹو سربراہی اجلاس کے لیے دی ہیگ روانہ ہونے سے قبل صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا ایران کی جوہری صلاحیت اب ختم ہو چکی،خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل اور ایران، دونوں کو جنگ بندی کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دیا ہے ،امریکی صدر نے اسرائیل پر شدید برہمی
کا اظہار کرتے ہوئے کہا مجھے یہ بالکل پسند نہیں آیا کہ اسرائیل نے معاہدہ ہوتے ہی شدید حملے شروع کر دئیے ، یہ حملے ضروری نہیں تھے ، اور جوابی کارروائی بھی حد سے زیادہ تھی، جو مجھے پسند نہیں آئی،انصاف کی بات کی جائے تو اسرائیل نے بہت زیادہ بمباری کی اور اب میں سن رہا ہوں کہ اسرائیل نے صرف ایک راکٹ کی بنیاد پر جو کہیں نہیں گرا مزید حملے شروع کر دئیے ، یہ وہ طرزِ عمل نہیں جو ہم چاہتے ہیں۔ ہمارے پاس بنیادی طور پر دو ممالک ہیں جو اتنے عرصے سے اور اتنی شدت سے لڑ رہے ہیں کہ اب وہ جانتے ہی نہیں کہ آخر وہ کر کیا رہے ہیں۔ اسرائیل اور ایران ایک ہی وقت میں میرے پاس آئے اور کہا ہم امن چاہتے ہیں، خدا اسرائیل اورایران دونوں کو برکت دے ۔ ایران کے پاس تیل کی دولت ہے اور وہ آگے بڑھنے کا اہل ہے ،ایران جوہری ہتھیار حاصل نہیں کرے گا، انہوں نے کہا میں ایران میں حکومت کی تبدیلی نہیں چاہتا،اس سے وہاں افراتفری ہو جائے گی،میں چاہوں گا کہ حالات جتنی جلدی ممکن ہو، پرسکون ہو جائیں، ایرانی نہایت اچھے تاجر اور ماہر کاروباری لوگ ہیں، اُن کے پاس تیل کی وافر دولت موجود ہے ، اس لیے اُنہیں خود کو سنبھال لینا چاہیے ،وہ دوبارہ تعمیر کر سکتے ہیں اور بہتر انداز میں آگے بڑھ سکتے ہیں، وہ کبھی جوہری طاقت نہیں بنیں گے ، لیکن اس کے علاوہ، اُن کے لیے بہت کچھ بہتر کرنا ممکن ہے ۔واضح رہے کہ ایران کی جانب سے ایک روز قبل قطر میں امریکی فوجی اڈے العدید پر میزائل حملے کے چند گھنٹے بعد امریکی صدر نے اعلان کیا تھا کہ ایران اور اسرائیل جنگ بند پر آمادہ ہوگئے ہیں۔دریں اثنا دنیا نے ایران اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کا خیر مقدم کیا ہے ، سعودی عرب کی وزارت خارجہ نے خطے میں کشیدگی کے خاتمے کے لیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی کوششوں کوسراہتے ہوئے کہا سعودی عرب خطے میں کشیدگی ختم کرکے فریقین کے درمیان جنگ بندی کے معاہدے کا خیرمقدم کرتا ہے ،امید ہے کہ آنے والے دنوں میں تمام فریق تحمل کا مظاہرہ کریں گے ۔ طاقت کے استعمال یا اس کی دھمکی سے گریز کریں گے اور یہ معاہدہ خطے میں امن و استحکام کی بحالی میں مددگار ثابت ہوگا تاکہ مسلسل کشیدگی کے خطرات سے بچا جا سکے ۔سعودی عرب ایک بار پھر اپنے اس پختہ موقف کا اعادہ کرتا ہے کہ علاقائی تنازعات اور اختلافات کے حل کے لیے مکالمہ اور سفارتی ذرائع اپنانے چاہئیں تاکہ ریاستوں کی خودمختاری کا احترام کیا جا سکے اور خطے و دنیا میں امن، استحکام، خوشحالی اور ترقی کو فروغ دیا جا سکے ۔چینی وزارت خارجہ کے ترجمان گو جیاکن نے پریس بریفنگ میں کہا ایران اسرائیل جنگ بندی کے مقاصد جلد حاصل ہونے کی امید ہے ۔ چین نہیں چاہتا کہ اسرائیل اور ایران کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہو، اور وہ مشرقِ وسطیٰ میں امن و استحکام برقرار رکھنے کے لیے بین الاقوامی برادری کے ساتھ مل کر کام کرنے کو تیار ہے ۔ چین تمام فریقین سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ جلد از جلد سیاسی حل کی جانب واپس آئیں۔چین کے وزیر خارجہ وانگ یی نے ایرانی ہم منصب عباس عراقچی سے ٹیلیفونک رابطہ کیا اور کہا چین حقیقی جنگ بند ی کے قیام کی حمایت کرتاہے ،چین مشرق وسطٰی میں امن کا خواہاں ہے ،ترک وزیرخارجہ سے بات کرتے ہوئے وانگ یی نے کہا تمام فریقین کو برابری کی بنیاد پر دوبارہ مکالمے کا آغاز کرنا چاہیے ۔ کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہاروس ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کا خیرمقدم کرے گا، اگر واقعی جنگ بندی ہو گئی ہے تو یہ صرف قابلِ تحسین ہو سکتی ہے ، ماسکو کو امید ہے یہ جنگ بندی پائیدار ثابت ہوگی۔یورپی یونین کی سربراہ ارزولا فان ڈیر لیئن نے کہا یورپ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کے اعلان کا خیرمقدم کرتا ہے ۔ یہ ایک ایسے خطے میں استحکام کی بحالی کی جانب ایک اہم قدم ہے جو تناؤ کا شکار ہے ،یہ ہماری مشترکہ ترجیح ہونی چاہیے ۔انہوں نے ایران پر زور دیا کہ وہ ایک قابل اعتبار سفارتی عمل میں سنجیدگی سے شریک ہو، کیونکہ مذاکرات کی میز ہی آگے بڑھنے کا واحد ذریعہ ہے ۔