اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

انتخابی اصلاحات کا مخمصہ

حلقہ این اے 249 کراچی کے متنازع نتائج کا حوالہ دیتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے سلسلہ وار ٹویٹس میں کہا ہے کہ ٹیکنالوجی اور الیکٹرانک ووٹنگ مشین ہی انتخابی شفافیت کے حصول کا واحد راستہ ہے۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ڈسکہ کے ضمنی انتخابات اور سینیٹ انتخابات میں بھی یہی ہوا۔ بقول ان کے 1970ء کے سوا ملک میں ہونے والے سبھی انتخابات پر دھاندلی کے الزامات ان کی ساکھ پر شکوک پیدا کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہماری حکومت پُر عزم ہے اور ہم جمہوریت کے استحکام‘ انتخابات میں شفافیت اور ان کی ساکھ کی بحالی کے لیے ٹیکنالوجی بروئے کار لاتے ہوئے نظامِ انتخابات کی اصلاح کریں گے۔ حکومت کی جانب سے انتخابی نظام کی اصلاح کا عزم خوش آئند ہے مگر وزیر اعظم کے بیانات سے مترشح ہوتا ہے کہ وہ ملکی انتخابی نظام کی خرابیوں کا ذمہ دار صرف ٹیکنالوجی کے عدم وجود کو سمجھتے ہیں جبکہ بادی النظر میں ایسا نہیں ہے۔ اس میں کچھ اور عوامل کا کردار بھی ہے۔ ٹیکنالوجی کے استعمال نے نظامِ کار کو تیز‘ ہموار اور سہل ضرور کیا ہے مگر جہاں تک شفافیت کی بات ہے تو اس کا انحصار ٹیکنالوجی سے زیادہ قوانین اور ضوابط کی عملداری یقینی بنانے پر ہے۔ ٹیکنالوجی اس کام میں کسی قدر بہتری اور آسانی پیدا کر سکتی ہے مگر کلی طور پر ٹیکنالوجی کو شفافیت کا جواز تصور کر لینا بعید از قیاس ہے۔ ہم آئے روز سائبر کرائمز کے واقعات کی خبریں سنتے ہیں بلکہ ٹیکنالوجی میں جدت کے ساتھ اس نوعیت کے جرائم کے واقعات اور شدت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ سائبر سکیورٹی کے شعبے کی ایک تحقیق کے مطابق 2021ء میں ہر گیارہ سیکنڈ میں ایک سائبر اٹیک متوقع ہے اور آنے والے چند برسوں کے دوران ان واقعات میں سالانہ 15 فیصد اضافہ ہوتا چلا جائے گا؛ چنانچہ صرف انفارمیشن ٹیکنالوجی کو کسی مسئلے کا حل سمجھنے کے بجائے ہمیں مسائل کو ان کی اصلیت میں سمجھنے کی کوشش کرنا ہو گی اور اگر معاملہ ہمارے انتخابی نظام کا ہو تو یہ ماننا ہرگز مشکل نہیں کہ انتخابی نظام کی غیر شفافیت کی بنیادی وجہ اس نظام کو تحفظ دینے والے قوانین اور ضوابط کو چکمہ دینا‘ ورغلانا اور ان کی اتھارٹی کو تسلیم نہ کرنا ہے‘ ورنہ 1970ء کے انتخابات‘ جو ہمارے لیڈروں کی نظر میں مجموعی طور پر شفافیت کا سرٹیفکیٹ حاصل کر تے ہیں‘ بھی اسی نظام کے تحت کروائے گئے تھے۔ یعنی مسئلہ انتخابی نظام میں نہیں ہے بلکہ یہ نظام کی عملداری نہ ہونے سے پیدا ہوتا ہے۔ جہاں تک انتخابی عمل کی بات ہے تو مجموعی طور پر اس میں شفافیت یقینی بنانے کے تہہ در تہہ انتظامات موجود ہیں جیسا کہ ووٹر لسٹ میں ووٹ کی تصدیق کے کم از کم دو مراحل اور ووٹر لسٹ میں ووٹر کی تصویر‘ نشان انگوٹھا جس کے لیے مخصوص سیاہی استعمال کی جاتی ہے۔ ان تصدیقی مراحل کے بعد ووٹ کی جعل سازی کا اندیشہ یقینی حد تک ختم ہو جانا چاہیے۔ اگر ووٹ دینے کے عمل میں ان تصدیقی مدارج کو یقینی بنایا جائے تو بلا شبہ انتخابی عمل کی شفافیت پر کوئی حرف نہیں آ سکتا۔ مگر حالیہ کم از کم دو ضمنی انتخابات کے نتائج کی جو تفصیلات خبروں میں گردش کر رہی ہیں اور بنیادی طور پرجو امیدواروں کے اعتراضات کی بنیاد ثابت ہوئیں‘ انتخابی عمل کی ناکامی کی اصل ذمہ دار ہیں۔ اس سلسلے میں ووٹوں کی گنتی کا عمل اور نتائج کی ریٹرننگ افسران کے دفاتر میں پیشی میں غیر معمولی تاخیر بنیادی سوالیہ نشان ہے۔ یہ واقعات پہلے بھی ہوتے رہے ہیں مگر اب یہ واقعات سلسلہ وار ہو رہے ہیں جس سے شبہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کے انتخابی نظام کو مفلوج اور بے وقعت کرنے کی کوئی سوچی سمجھی سازش ہے۔ لہٰذا حکومت کو الیکشن کمیشن آف پاکستان کی تکنیکی کپیسٹی میں اضافے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہوئے یہ بھی مد نظر رکھنا چاہیے کہ انتخابی نظام کی ناکامی بنیادی طور پر تکنیکی نہیں قانونی نوعیت کا سوال ہے۔ سنجیدگی سے توجہ دے کر اس سوال کا جواب تلاش کیا جا سکتا ہے!

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement