اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

امریکی انخلا اور پاک افغان معاملات

بلوچستان کے ضلع ژوب میں پاک افغان سرحد پر باڑ کی تنصیب میں مصروف فرنٹیئر کور (ایف سی) کے 4 اہلکاروں کی افغانستان سے آئے دہشت گردوں کے حملوں میں شہادت افغان صورت حال کے حوالے سے پاکستان سمیت دوسرے کئی ممالک کے ان خدشات کی توثیق کرتی ہے کہ امریکہ اور نیٹو افواج کے مکمل انخلا تک اگر افغان حکومت اور طالبان کے مابین کوئی امن معاہدہ طے نہ پایا تو حالات نوے کی دہائی جیسا رخ اختیار کر سکتے ہیں جب سوویت افواج کے انخلا کے بعد افغانستان خانہ جنگی کا شکار ہو گیا تھا اور جس کا نتیجہ اقوامِ عالم بالخصوص پڑوسی ممالک آج تک بھگت رہے ہیں۔ یاد رہے کہ سوویت انخلا کے وقت بھی افغانستان میں ایک پائیدار حکومت کی تشکیل کی ضرورت پر زور دیا گیا تھا تاکہ یہ ملک بعد از انخلا داخلی شورش اور انتشار کا شکار نہ ہو‘ لیکن امریکہ سمیت کسی ملک نے اس ضرورت کو محسوس نہ کیا جس کا نتیجہ سب نے دیکھا۔ امریکی جوائنٹ چیفس کے چیئرمین جنرل مارک ملی نے بھی چند روز پہلے کچھ اسی نوعیت کا خدشہ ظاہر کیا تھا۔ ان کا بھی خیال ہے کہ غیر ملکی فوجیوں کے مکمل انخلا کے بعد افغانستان میں ممکنہ نتائج افغان حکومت کا خاتمہ، خانہ جنگی، انسانیت سوز تباہی اور اس سرزمین پر القاعدہ کی بحالی وغیرہ کی صورت میں برآمد ہو سکتے ہیں۔ ان حالات میں‘ جب امریکی اور نیٹو افواج کا افغانستان سے باقاعدہ انخلا شروع ہو چکا ہے‘ پاکستان کی مغربی سرحد پر حملہ دہشت گردوں کے دوبارہ فعال ہونے کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے جاری کردہ بیان کے مطابق‘ بلوچستان کے ضلع ژوب میں پاک‘ افغان سرحد کے ساتھ سیکٹر منکزئی میں باڑ لگانے کا کام جاری تھا کہ افغانستان سے آنے والے دہشتگردوں نے ایف سی کے اہلکاروں پر حملہ کر دیا۔

دہشتگردوں کے اچانک حملے میں ایف سی کے چار اہلکار شہید اور 6 زخمی ہوگئے۔ ایف سی اہلکاروں نے دہشتگردوں کے حملے کا فوری اور مؤثر جواب دیا۔ یہ امر واضح رہنا چاہیے کہ افغان سرحد پر پاکستان کا باڑ لگانے کا عمل بہت سی قوتوں کو کھٹکتا ہے کیونکہ یہ قوتیں جانتی ہیں کہ باڑ اگر مکمل ہوگئی تو ان کیلئے ڈیورنڈ لائن کے آرپار آنے جانے اور پاکستان میں دہشتگردی کے واقعات سٹیج کرنا ناممکن ہو جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی جانب سے اس میں رخنہ ڈالنے کا کام ایک عرصے سے جاری ہے۔ اس سے قبل بھی متعدد ایسے واقعات رونما ہو چکے ہیں‘ جن میں پاکستانی شہریوں اور پاک فوج کے جوانوں کو نشانہ بنایا گیا۔ رواں سال 12 فروری کو خیبر پختونخوا کے قبائلی علاقے باجوڑ میں افغانستان سے آنے والے دہشتگردوں کی جانب سے راکٹوں کے حملوں کے باعث ایک بچی جاں بحق اور 7 بچے زخمی ہوگئے تھے۔ 14 اکتوبر 2020ء کو بھی باجوڑ میں افغان سرحد پر سکیورٹی فورسز کی چیک پوسٹ پر سرحد پار سے دہشتگردوں کی فائرنگ کے نتیجے میں پاک فوج کا ایک جوان شہید جبکہ ایک اہلکار زخمی ہوگیا تھا۔ قبل ازیں 22 ستمبر کو بھی سرحد پار سے فائرنگ کی گئی تھی۔ یہ امر بھی قابلِ غور ہے کہ یہ واقعہ ایسے وقت میں پیش آیا جب داخلی مسائل سے دوچار مشرقی ہمسایے بھارت کی جانب سے جنگ بندی سے متعلق ڈائریکٹرز جنرل ملٹری آپریشنز کے معاہدے کی پہلی خلاف ورزی کرتے ہوئے سیالکوٹ کے چاروا سیکٹر میں ورکنگ بائونڈری عبور اور بلااشتعال فائرنگ کی گئی۔ یاد رہے کہ ڈی جی ایم اوز کے مابین بات چیت کے نتیجے میں یہ معاہدہ امسال 25 فروری کو طے پایا تھا۔ مشرقی سرحد پہ فائرنگ کے بعد مغربی سرحد پر حملہ پاکستان کے چومکھی دشمن کے ہر طرف سے حملہ آور ہونے کی بھی نشاندہی کر رہا ہے۔ یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ جب تک افغانستان داخلی عدم استحکام کا شکار رہے گا پراکسی جنگ کا اکھاڑہ بنا رہے گا۔

پُرامن افغانستان یقینا ان غیر ملکی ایجنسیوں اور طاقتوں کو کھٹکتا ہے جو یہاں بیٹھ کر خطے میں اپنے مذموم مقاصد کے حصول کیلئے کوشاں ہیں۔ اس حملے کا ایک مقصد پاکستان اور افغان حکومت کے مابین عدم اعتماد کو بڑھانا بھی ہو سکتا ہے‘ لہٰذا چوکس رہنے کی ضرورت ہے۔ گزشتہ دنوں کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے اپنے پہلے خطاب میں امریکی صدر جو بائیڈن نے واضح طور پر کہا تھا کہ افغانستان سے فوج بلانے کے بعد ہمیں پاکستان اور افغانستان کے مابین اعتماد بحال کرنا ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ تمام فریق سنجیدہ طرزِ عمل اختیار کرتے ہوئے افغان مسئلے کو منطقی حل کی طرف لائیں۔ طالبان سمیت تمام عسکری گروہوں کو جنگ ترک کرکے اقتدار میں اشتراک کیلئے جمہوری طریقہ اپنانا چاہیے جبکہ افغان حکومت کو بھی اپنی ضد ترک کرکے ملک کے مستقبل کا معاملہ ملک کے عوام کے حوالے کر دینا چاہیے۔ افغانستان کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لینے کے خواہشمند تمام سیاسی و عسکری افغان گروہوں کو صورتحال کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اپنے ملک و عوام کے بہترین مفاد میں تمام تر معاملات کو افہام و تفہیم کے ساتھ بات چیت کے ذریعے حل کرنا چاہئے۔ اگرچہ اس حوالے سے پاکستان کی کوششوں کا بھرپور اعتراف کیا گیا ہے مگر ہمیں اپنی کاوشیں مزید تیز کرنا ہوں گی کیونکہ پُرامن افغانستان ہی پُرامن پاکستان کی ضمانت بن سکتا ہے‘ لیکن ایسا افغان حکومت کی جانب سے اپنی سرزمین پر پاکستان مخالف عناصر کو پوری طرح قابو کیے بغیر ممکن نہ ہوگا۔ باڑ کی جلد از جلد تکمیل بھی از حد ضروری ہے کہ افغان سرزمین پر موجود پاکستان مخالف عناصر کی شرپسندی سے بچنا اس کے طفیل ممکن ہو سکے گا۔ 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement