آج لاہور میں چھٹی کا دن تھا اور میں فیروز پور روڈ پر اچھرہ کی طرف جا رہا تھا۔ اچانک چلتے چلتے مجھے خیال آیا کہ یہیں کہیں سڑک کے بائیں طرف لاہور کا معروف پنچولی آرٹ سٹوڈیو ہوا کرتا تھا جو بعد میں ایور نیو سٹوڈیو اور پھر پاسپورٹ آفس کا مسکن رہا۔ دل سکھ پنچولی کا آرٹ سٹوڈیو‘ جو لاہور کا سب سے بڑا فلم سٹوڈیو تھا‘ اب اس عمارت کا نام و نشان بھی باقی نہیں رہا۔ سب کچھ بدل چکا ہے۔ میں سوچتا ہوں وقت کا دریا کیسے سب کچھ بہا کے لے جاتا ہے اور کناروں پر محض یادوں کی سنہری ریت باقی رہ جاتی ہے۔
اس کا نام دل سکھ پنچولی تھا۔ وہ 1906ء میں کراچی میں پیدا ہوا۔ لاہور سے فلمی سفر کی شاندار ابتدا کی اور محض 53برس کی عمر میں دنیا سے کوچ کر گیا۔ دل سکھ کے والد لاہور میں امریکی فلموں کے سب سے بڑے امپورٹر اور ڈسٹری بیوٹر تھے۔ گھر کا ماحول ایسا تھا کہ فلم سے دل سکھ پنچولی کی دلچسپی کی ابتدا بچپن ہی سے ہو گئی تھی۔ تعلیم حاصل کرنے کے بعد دل سکھ پنچولی نے نیو یارک کا رُخ کیا جہاں اس نے سکرین رائٹنگ کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی۔ نیو یارک سے واپس آکر اس نے پنچولی آرٹ سٹوڈیو میں متحرک کردار ادا کرنا شروع کیا۔ پنچولی آرٹ سٹوڈیو اُس زمانے میں لاہور کا سب سے بڑا سٹوڈیو تھا۔
دل سکھ پنچولی کی پہلی فلم ''سوہنی مہینوال‘‘ تھی۔ یہ فلم 1939ء میں ریلیز ہوئی۔ فلم کی بنیاد پنجاب کی معروف رومانوی داستان سوہنی مہینوال پر رکھی گئی تھی۔ اس فلم کی کامیابی نے دل سکھ پنچولی کو حوصلہ بڑھایا تو اس نے اپنے سٹوڈیو پنچولی آرٹ سٹوڈیو کے بینر تلے ''گل بکاؤلی‘‘ بنانے کا اعلان کیا۔ اس فلم میں پنچولی نے نور جہاں کو کاسٹ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس وقت نور جہاں کم سن تھی اور بے بی نور جہاں کہلاتی تھی۔ موسیقی کے لیے پنچولی نے ماسٹر غلام حیدر کا انتخاب کیا۔ فلم میں نور جہاں کے علاوہ ثریا بھی شامل تھی۔ پنچولی آرٹ سٹوڈیو کی پہلی فلم ہی نے کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے۔ اس کامیابی نے پنچولی کے اعتماد میں اضافہ کیا اور اس نے اگلے ہی برس ایک اور پنجابی فلم ''یملا جٹ‘‘ بنانے کا اعلان کیا۔ اس فلم میں نور جہاں‘ جو اَب بے بی نور جہاں نہیں رہی تھی‘ کو سپورٹنگ ایکٹریس کے طور پر شامل کیا۔ اس فلم کی موسیقی ماسٹر غلام حیدر نے دی تھی اور فلم کے گیت شمشاد بیگم اور نور جہاں نے گائے تھے۔ یہ فلم 1940ء میں ریلیز ہوئی اور باکس آفس پر کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔ 1941ء میں پنچولی نے ایک اور پنجابی فلم ''چودھری‘‘ ریلیز کی۔ پنچولی کی پہلی فلموں کے برعکس یہ کسی رومانوی لو ک داستان پر نہیں بنائی گئی تھی۔ اس فلم کی ایک اور خاص بات یہ تھی کہ اس میں نور جہاں پہلی بار ہیروئن کے روپ میں آئی تھی۔ اس فلم کی موسیقی بھی ماسٹر غلام حیدر نے دی تھی۔ نور جہاں نے فلم میں اداکاری کے علاوہ گیت بھی گائے تھے۔ یہ فلم بھی باکس آفس پر بہت کامیاب رہی۔ یوں دل سکھ پنچولی نے پنچولی آرٹ سٹوڈیو کے بینر تلے ''گل بکاؤلی‘‘، ''یملا جٹ‘‘ اور ''چودھری‘‘ بنا کر کامیاب فلموں کی ہیٹ ٹرک کی۔
تین کامیاب پنجابی فلموں کے بعد پنچولی نے اردو فلم بنانے کا اعلان کیا۔ یہ اس کے لیے ایک نیا تجربہ تھا۔ اس فلم میں ہمیشہ کی طرح پنچولی نے ماسٹر غلام حیدر کو بطور موسیقار لیا اور گیتوں میں نئی ابھرتی ہوئی گلوکارہ شمشاد بیگم کو موقع دیا جس کی مدھر اور منفرد آواز نے فلم میں جان ڈال دی۔ اس فلم نے کامیابی کے نئے ریکارڈ قائم کیے اور پنچولی‘ ماسٹر غلام حیدر‘ نور جہاں اور نوجوان گلوکارہ شمشاد کے لیے کامیابیوں کے نئے دروازے کھول دیے۔ یہی فلم تھی جس کے بعد ماسٹر غلام حیدر اور شمشاد ہندوستان کی فلمی دنیا میں پہچانے گئے۔ اس فلم کی کامیابی کے بعد دل سکھ پنچولی ہندوستان کے وسیع تر فلمی منظر نامے کا ایک اہم نام بن گیا۔
''خزانچی‘‘ فلم کے بعد دل سکھ پنچولی نے پنچولی آرٹ سٹوڈیو کے بینر تلے 1942ء میں ''زمیندار‘‘ اور ''خاندان‘‘ کے نام سے دو اور فلمیں ریلیز کیں۔ زمیندار فلم ایک انگریزی ناول کی کہانی پر بنائی گئی تھی۔ اس فلم کی موسیقی بھی ماسٹر غلام حیدر نے دی تھی اور دوسرے گلوکاروں کے علاوہ شمشاد بیگم نے اپنی آواز کا جادو جگایا تھا۔ اسی برس (1942ء) پنچولی آرٹ سٹوڈیو کی فلم 'خاندان‘ بھی ریلیز ہوئی۔ اس فلم کی ڈائریکشن کے لیے شوکت حسین رضوی کا انتخاب کیا گیا جو اس سے پہلے ایڈیٹنگ کے شعبے سے وابستہ تھے۔ فلم کی کہانی امتیاز علی تاج نے لکھی تھی اور اداکاروں میں پَران اور نور جہاں شامل تھے۔ فلم ریلیز ہوئی تو اس نے کامیابی کے نئے ریکارڈ قائم کیے۔ نور جہاں کی شہرت کو تو جیسے پَر لگ گئے۔ اس کے ساتھ ہی شوکت رضوی نے بطور ہدایت کار پوزیشن مستحکم کر لی۔ اس کے بعد پنچولی آرٹ سٹوڈیو کے زیر اہتمام پونجی(1943ء)‘ داسی (1944ء)‘ شیریں فرہاد (1945ء) ریلیز ہوئیں۔ مسلسل کامیاب فلموں کی بدولت اب دل سکھ پنچولی نے اپنی فلمی سلطنت کو وسیع کر دیا تھا‘ اس نے لاہور میں کچھ اور سنیما گھر خرید لیے تھے۔ سب کچھ معمول کے مطابق چل رہا تھا۔
پھر ہندوستان کی تقسیم کا اعلان ہوا۔ اس کے ساتھ ہی سرحد کے دونوں طرف فسادات شروع ہو گئے۔ لاہور بھی فسادات کی زد میں آ گیا۔ دل سکھ پنچولی کے لیے لاہور چھوڑنا آسان نہ تھا۔ اس کا سارا سرمایہ یہیں پر تھا‘ لیکن ہر گزرتے دن کے ساتھ حالات بگڑتے جا رہے تھے۔ آخر کار اسے لاہور چھوڑنے کا مشکل فیصلہ کرنا پڑا۔ اس کا خیال تھا کہ لاہور سے یہ جدائی عارضی ہے۔ اس نے اپنا سٹوڈیو اپنے منیجر کے حوالے کیا اور خود لاہور سے بمبئی چلا گیا۔ پنچولی آرٹ سٹوڈیو اس کے لاہور سے جانے کے بعد بھی اس کے منیجر کی زیرِ نگرانی چلتا رہا۔
دل سکھ پنچولی لاہور سے بمبئی چلا تو گیا تھا لیکن اسے یقین تھا کہ حالات جلد بہتر ہو جائیں گے تو وہ واپس لاہور آجائے گا جہاں اس کے کئی سنیما گھر اور سٹوڈیوتھا۔ لیکن دن‘ مہینے گزرتے گئے اور پھر اس کی لاہور واپسی کی امید بھی دم توڑ گئی۔ تب اس نے بمبئی میں پنچولی پروڈکشنز کی بنیاد رکھی اور اس کے بینر تلے فلموں کا آغاز کیا۔ 1950ء میں اس نے ''مینا بازار‘‘ کے نام سے فلم ریلیز کی۔ اس میں نرگس اور شیام نے مرکزی کردار ادا کیے۔ اگلے برس (1951ء) پنچولی پروڈکشنز کی نئی فلم ''نگینہ‘‘ ریلیز ہوئی۔ یہ ایک سسپنس سے بھرپور فلم تھی۔1952ء میں پنچولی نے ایک اور اہم فلم ''آسمان‘‘ ریلیز کی۔ اس فلم میں پنچولی نے نوجوان موسیقار اوپی نّیر کو بطور میوزک ڈائریکٹر لیا اور اس فلم میں سی ایچ آتما نے تین گیت گائے اور تینوں گیت مقبول ہوئے۔ یہ فلم باکس آفس پر کامیاب رہی۔ اس کی آخری فلم ''فرشتہ‘‘ تھی جو 1958ء میں ریلیز ہوئی۔ اس فلم میں سہراب مودی اور مینا کماری نے مرکزی ادا کیے۔ ''فرشتہ‘‘ پنچولی کے شاندار فلمی کیریئر کی آخری فلم تھی جس کی ابتدا 1939ء میں ریلیز ہونے والی فلم ''سوہنی مہینوال‘‘ سے ہوئی تھی۔ دل سکھ پنچولی نے جہاں لاہور کو فلمی سرگرمیوں کا مرکز بنایا اور لگاتار معیار ی فلمیں پیش کیں وہیں بہت سے نئے فنکاروں کو بھی فلمی دنیا سے متعارف کرایا۔ ان فن کاروں میں ماسٹر غلام حیدر‘ نور جہاں‘ اوپی نّیر‘ شمشاد بیگم اور سی ایچ آغا شامل ہیں۔
آج لاہور میں چھٹی کا دن تھا اور میں فیروز پور روڈ پر اچھرہ کی طرف جا رہا تھا۔ اچانک چلتے چلتے مجھے خیال آیا کہ یہیں کہیں سڑک کے بائیں طرف لاہور کا معروف پنچولی آرٹ سٹوڈیو ہوا کرتا تھا جو بعد میں ایور نیو سٹوڈیو اور پھر پاسپورٹ آفس کا مسکن رہا۔ دل سکھ پنچولی کا آرٹ سٹوڈیو‘ جو لاہور کا سب سے بڑا فلم سٹوڈیو تھا‘ اب اس عمارت کا نام و نشان بھی باقی نہیں رہا۔ سب کچھ بدل چکا ہے۔ میں سوچتا ہوں وقت کا دریا کیسے سب کچھ بہا کے لے جاتا ہے اور کناروں پر محض یادوں کی سنہری ریت باقی رہ جاتی ہے۔