دنیا بھر میں یکم مئی مزدوروں کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اگرچہ 1886ء میں شکاگو کے محنت کشوں کی جدوجہد کو زور‘ زبردستی سے دبا دیا گیا تھا لیکن بعد ازاں یہ دن بین الاقوامی سطح پر مزدوروں اور محنت کشوں کے حوالے سے غیر معمولی اہمیت اختیار کر گیا۔ آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں بہت سی سیاسی اور سماجی تنظیمیں اور تحریکیں اس دن پر مزدوروں اور محنت کشوں کے حقوق کی بحالی کے حوالے سے اپنے اپنے منشور‘ خیالات اور جذبات کا اظہار کرتی ہیں لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ تاحال کوئی بھی تحریک کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔ آج بھی مزدور اور محنت کش طبقہ معاشرے میں باوقار زندگی گزارنے کی کوشش میں سرگرداں نظر آتا ہے۔ نبی کریمﷺ جب دنیا میں جلوہ افروز ہوئے تو اس وقت غلام اور لونڈی رکھنے کا تصور عام تھا۔ آپﷺ نے گناہوں کے کفارے میں غلاموں کی آزادی کی شق کو بھی شامل کیا جس کا مقصد معاشرے سے بتدریج غلامی کو ختم کرنا تھا۔ نبی کریمﷺ کی احادیث مبارکہ پر غور و خوض کرنے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ آپﷺ مزدوروں کے ساتھ کس قدر حسنِ سلوک کی ترغیب دلایا کرتے تھے۔ اس حوالے سے دو اہم احادیث درج ذیل ہیں:
(1) صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ''اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ تین طرح کے لوگ ایسے ہوں گے جن کا قیامت کے دن میں مدعی بنوں گا‘ ایک وہ شخص جس نے میرے نام پر کوئی عہد کیا اور وہ توڑ دیا۔ دوسرا وہ شخص جس نے کسی آزاد انسان کو بیچ کر اس کی قیمت کھائی اور تیسرا وہ شخص جس نے کوئی مزدور اجرت پر رکھا‘ اس سے پوری طرح کام لیا لیکن اس کی مزدوری نہیں ادا کی‘‘۔ (2) سنن ابن ماجہ میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ''مزدور کو اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے مزدوری دے دو‘‘۔
بعض لوگ مزدوروں سے اپنا کام بغیر اجرت طے کیے کرا لیتے ہیں اور جس وقت کام مکمل ہو جاتا ہے تو وہ مزدور کو اس کی توقع سے کم رقم دیتے ہیں جس کی وجہ سے بالعموم مزدور اور مزدوری کرانے والے کے درمیان ایک تنازع کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ نبی کریمﷺ نے مزدور کی مزدوری طے کیے بغیر اس سے کام لینے سے منع کیا ہے۔ اس حوالے سے مسند احمد میں سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے مزدور سے اجرت طے کیے بغیر اسے مزدوری پر رکھنے سے منع فرمایا ہے۔
کئی لوگ محنت کشوں اور مزدوروں کی مالی حیثیت کی وجہ سے ان کو کمتر سمجھتے ہیں۔ یہ رویہ ہر اعتبار سے قابلِ مذمت ہے۔ کتب احادیث میں اس بات کی صراحت ہے کہ کئی مرتبہ انسان اپنی نیکی‘ تقویٰ اور اچھے اعمال کی وجہ سے غریب ہونے کے باوجود امیروں پر سبقت لے جاتا ہے۔ اس حوالے سے سلسلہ احادیث صحیحہ میں حضرت ابوذرؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے ان سے فرمایا: تمہارا (فلاں) مزدورکے بارے میں کیا خیال ہے؟ میں نے کہا: مسکین ہے‘ جیسے مسکین لوگوں کی صورت ہوتی ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: فلاں (رئیس) کے بارے میں کیا خیال ہے؟ میں نے کہا: سردار ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: یہ مزدور زمین بھر یا ہزاروں گنا (یا اسی طرح کوئی بات کہی) فلاں (رئیس) سے بہتر ہے۔
مزدوروں سے حسنِ سلوک کرنا اس حد تک اہمیت کا حامل ہے کہ مشکلات اور مصائب میں گرفتار ہونے پر ایسے شخص کی دعا کو بھی اللہ تبارک وتعالیٰ شرفِ قبولیت سے نوازتے ہیں جس نے مزدوروں کے ساتھ حسنِ سلوک کیا ہو۔ اس حوالے سے صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ''پچھلے زمانے میں ( بنی اسرائیل میں سے) تین آدمی کہیں راستے میں جا رہے تھے کہ اچانک بارش نے انہیں آ لیا۔ وہ تینوں پہاڑ کے ایک کھوہ (غار) میں گھس گئے (جب وہ اندر چلے گئے) تو غار کا منہ بند ہو گیا۔ اب تینوں آپس میں کہنے لگے کہ اللہ کی قسم ہمیں اس مصیبت سے اب تو صرف سچائی ہی نجات دلائے گی۔ بہتر یہ ہے کہ اب ہر شخص اپنے کسی ایسے عمل کو بیان کر کے دعا کرے جس کے بارے میں اسے یقین ہو کہ وہ خالص اللہ کی رضا کے لیے کیا تھا۔ چنانچہ ایک نے اس طرح دعا کی: اے اللہ ! تجھ کو خوب معلوم ہے کہ میں نے ایک مزدور رکھا تھا جس نے ایک فرق (تین صاع) چاول کی مزدوری پر میرا کام کیا تھا لیکن وہ شخص (غصہ میں آ کر) چلا گیا اور اپنے چاول چھوڑ گیا۔ پھر میں نے اس ایک فرق چاول کو لیا اور اس کی کاشت کی۔ اس سے اتنا کچھ ہو گیا کہ میں نے اس پیداوار سے گائے‘ بیل خرید لیے۔ اس کے بہت دن بعد وہی شخص مجھ سے اپنی مزدوری مانگنے آیا۔ میں نے کہا کہ یہ گائے‘ بیل کھڑے ہیں ان کو لے جا۔ اس نے کہا کہ میرا تو صرف ایک فرق چاول تمہارے ذمہ ہونا چاہیے تھا۔ میں نے اس سے کہا: یہ سب گائے بیل لے جا کیونکہ یہ اُسی ایک فرق کی آمدنی ہے۔ آخر وہ گائے بیل لے کر چلا گیا۔ پس اے اللہ! اگر تو جانتا ہے کہ یہ ایمانداری میں نے صرف تیرے ڈر سے کی تھی تو تُو غار کا منہ کھول دے۔ چنانچہ اسی وقت وہ پتھر کچھ ہٹ گیا۔ پھر دوسرے اور تیسرے شخص نے بھی اپنے نیک اعمال کا ذکر کر کے دعا کی تو پتھر مکمل ہٹ گیا اور اللہ تعالیٰ نے ان کی مشکل دور کر دی اور وہ تینوں باہر نکل آئے۔ اس حدیث پاک سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جو شخص مزدوروں کے ساتھ حسنِ سلوک کرتا ہے‘ مصیبت میں پھنس جانے پر جب وہ اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا کرتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ اس کی دعا قبول و منظور فرماتے ہیں۔
حالتِ جنگ میں بھی نبی کریمﷺ نے عورتوں اور مزدوروں کو قتل کرنے سے منع فرمایا ہے۔ اس حوالے سے سنن ابی دائود میں حضرت رباح بن ربیعؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک غزوہ میں رسول اللہﷺ کے ساتھ تھے‘ آپﷺ نے دیکھا کہ لوگ کسی چیز پر اکٹھے ہو رہے ہیں۔ آپ نے ایک آدمی کو بھیجا کہ دیکھ کر آئے وہ کیوں جمع ہیں ؟ اس نے آ کر بتایا: ایک عورت قتل کی گئی ہے اور وہ اس پر جمع ہیں۔ پس آپﷺ نے فرمایا: ''یہ تو لڑنے والی نہ تھی‘‘۔ بیان کیا گیا کہ اس فوج کے مقدمہ پر خالدؓ بن ولید تھے۔ آپﷺ نے ایک شخص کو بھیجا کہ خالد سے کہہ دو: ''کسی عورت یا کسی مزدور کو ہرگز قتل نہ کیا جائے‘‘۔
ہمارے ملک میں بھی ایک عرصے سے محنت کش اور مزدور طبقہ اپنے حقوق کی بحالی کیلئے جدوجہد کر رہا ہے۔ گزشتہ چند دن اس حوالے سے غیر معمولی اہمیت کے حامل رہے کہ ملک میں کسان اپنے حقوق کیلئے سرگرداں نظر آئے۔ کسان ملک کے محنت کشوں میں غیر معمولی حیثیت کے حامل ہیں۔ یہ ملک کی غذائی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔ ہمارا ملک ایک زرعی ملک ہے اور یہاں مختلف غذائی اجناس بڑے پیمانے پر پیدا ہوتی ہیں لیکن سیاسی اثر و رسوخ رکھنے والے بعض لوگ کئی مرتبہ اپنے ذاتی مفادات کیلئے غذائی اجناس کی درآمد سے کسانوں کی حق تلفی کے مرتکب ٹھہرتے ہیں۔ اس حوالے سے یہ بات سننے میں آ رہی ہے کہ ملک میں 30 لاکھ ٹن سے زائد گندم کو بغیر کسی معقول وجہ کے درآمد کیا گیا‘ جس وجہ سے ملک میں پیدا ہونے والی گندم کی قیمت میں نمایاں کمی ہوئی اور اب قیمت کی اس کمی کی وجہ سے کسانوں کو نقصان کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور اسی لیے کسان اپنے حقوق کیلئے مسلسل آواز بلند کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے حکومتِ وقت کی ذمہ داری ہے کہ مزدوروں اور کسانوں کے مطالبات پر غور کرے اور جو حقوق اُن کو کتاب و سنت اور آئینِ پاکستان نے دیے ہیں‘ انہیں فراہم کیے جائیں اور اُن کو بلاسبب نقصان پہنچانے سے گریز کیا جائے تاکہ وہ اپنے معاشی معاملات کو بہتر انداز سے آگے بڑھا سکیں اور معاشرے میں باوقار زندگی گزار سکیں۔