جب نظر آئے کہ کوئی چیز ڈھنگ سے نہیں ہو رہی‘ افراتفری ہر طرف ہے‘ ناکامیوں کی وجہ سے مایوسی کا دور دورہ ہے‘ قانون مذاق بن جائے‘ منصف زیادہ بولنے لگیں اور کچھ کرنے کے بجائے بولتے ہی رہیں‘ لاء اینڈ آرڈر کا بریک ڈاؤن ہونے لگے‘ معاشروں کے زوال اور ٹوٹنے کی نشانیاں ایسی ہی ہوتی ہیں۔ عوام کا فیصلہ کچھ اور ہو‘ عوام کے فیصلوں سے ہٹ کر حکومت سازی ہونے لگے۔ یہ بھی معاشرتی بریک ڈاؤن کی ایک نشانی ہے۔
ٹانک کے قریب دن دہاڑے ایک جج صاحب اغوا ہو جائیں اور ایک وڈیو ریلیز ہو جس میں جج صاحب کہہ رہے ہوں کہ میں طالبان کی تحویل میں ہوں اور ان کے مطالبات مان لیے جائیں‘ ورنہ نتائج خطرناک ہوں گے اور ایک روز بعد جج صاحب کی رہائی عمل میں آ جائے اور کسی کو یہ سمجھ نہ آئے کہ اغوا کاروں کے مطالبات کیا تھے اور رہائی کا عمل کن شرائط پر ہوا ہے۔ فیڈرل حکومت چپ‘ صوبائی حکومت چپ‘ لاء اینڈ آرڈر والے ادارے چپ بس عوام میں تشویش کی ایک اور لہر پھیل جائے کہ اب ایسا بھی ہونے لگا ہے۔ پنجاب کے کسان چلا چلا کر کہہ رہے ہوں کہ گندم کی قیمت کے حوالے سے اُن سے زیادتی ہو رہی ہے اور پنجاب کی میڈم چیف منسٹر یہ کہتی پھریں کہ ہم ایئر ایمبولینس چلائیں گے‘ یعنی مسائل کیا اور آپ کی ترجیحات کیا۔ احتجاج کرنے والے کسانوں کو تھانوں میں بند کر دیا جائے لیکن گندم کی قیمت کے حوالے سے کوئی فیصلہ نہ ہو سکے۔ جناب اسحاق ڈار جو وزیر خارجہ تو ہیں ہی اور دیگر کئی اعلیٰ سطحی کمیٹیوں کے ممبر بھی‘ کو نائب وزیراعظم کا عہدہ‘ جس کا کوئی ذکر آئین میں نہیں ہے‘ دے دیا جائے اور کسی کو یہ سمجھ نہ آئے کہ ایسا طفلانہ فیصلہ کیوں کیا گیا ہے۔ مولانا فضل الرحمن جو پی ٹی آئی کے حامی نہیں ہیں‘ قومی اسمبلی میں کھڑے ہوکر ببانگ دہل یہ کہیں کہ انتخابات میں اکثریت پی ٹی آئی کی تھی اورحکومت اُس کے حوالے کر دینی چاہیے‘ ساتھ ہی مولانا پاکستان کا موازنہ ہندوستان سے کریں کہ ایک ہی وقت آزاد ہوئے تھے اور دیکھیں ہندوستان کہاں ہے اور ہم کہاں۔ یہ واقعات بھی قومی افراتفری کی نشانیاں ہیں۔
اسلام آ بادہائیکو رٹ کے چھ جج صاحبان نے ایجنسیوں کی مداخلت کا خط تو لکھ دیا اور ان میں سے ایک جج‘ جسٹس بابر ستار‘ کے خلاف ایک باقاعدہ کمپین شروع ہو جائے جس میں اوٹ پٹانگ قسم کے الزامات لگائے جائیں۔ اس مہم کے خلاف اسلام آباد ہائیکورٹ کو ایک مذمتی بیان جاری کرنا پڑے۔ مملکتِ خداداد کی یہ حالت بن چکی ہے۔ جسٹس بابر ستار آکسفورڈ اور ہارورڈ کے پڑھے ہوئے ہیں۔ جج بننے سے پہلے انگریزی کالم لکھتے تھے اور اُن کا شمار ملک کے ممتاز کالم نگاروں میں ہوتا تھا۔ اُن کا قصور یہ ہے کہ اُن میں آزادی کی جھلک نظر آتی ہے اور یہ ہی روش ہمارے طاقتور حلقوں کو پسند نہیں۔ تھوڑا سا بھی یہاں کوئی ایماندار آدمی ہو اُسے ناپسندکیا جاتا ہے۔ مطلب پھر یہی ہوا کہ قابلیت اور ایمانداری دو ایسی چیزیں ہیں جن کی ہمارے معاشرے میں کوئی جگہ نہیں۔ اوسط درجے کے ذہن ہی قابلِ قبول ہوتے ہیں‘ عمومی ماحول اتنا کرپٹ اور گندا ہو چکا ہے کہ بے ایمانی پر لوگ نہ اُتریں تو مختلف محکموں میں اُنہیں پسند نہیں کیا جاتا۔ پھر ہم روتے ہیں کہ ملک اتنا پیچھے کیوں رہ گیا ہے۔ جب قابلیت اور ایمانداری یہاں چلنی ہی نہیں تو ترقی کے عمل نے آسمانوں سے گرنا ہے؟ عمر کے لحاظ سے ہم سینئر سٹیزن ہو گئے ہیں۔ ہمیں کوئی بتائے تو سہی کہ یہاں ہو کیا رہا ہے؟ کن خطوط پر اس ملک کو چلایا جا رہا ہے؟
سٹیک ہولڈر کے لفظ کا استعمال آج کل بڑا فیشن ایبل ہو گیا ہے۔ کوئی بتائے تو سہی کہ اس ملک میں کس کا سٹیک ہے؟ کتنوں کو ہم جانتے ہیں جنہوں نے کچھ نہ کچھ اپنا بیرونِ ملک میں بنایا ہوا ہے۔ کس کس کا نام لیں‘ نام لیں تو کالم چل نہ سکے گا۔ دبئی میں جائیداد رکھنا تو عام سی بات ہو گئی ہے۔ ملک میں کئی طبقات ہیں جن کے لیے جینا مشکل ہو گیا ہے اور ایک اوپر کا طبقہ ہے جس کا کچھ سٹیک ہے تو بیرونِ ملک میں اور یہی طبقہ ملک کے فیصلے کرتا ہے۔ تبدیلی آتی ہے سیاسی عمل سے۔ انتخابات ہوتے رہیں اور عوام کی پسند کی حکومت کاروبارِ مملکت چلائے۔ یہاں سیاسی عمل ہونے نہیں دینا‘ اپنی مرضی کرنی ہے‘ انتخابات کرانے بھی ہیں تو اس دھاندلی کے ساتھ کہ انسان کان پکڑنے پر مجبور ہو جائے۔ یعنی ایک نظام ظالمانہ اور غاصبانہ قوم پر مسلط کیا ہوا ہے اور پھر اس نظام کی تبدیلی کا ہر راستہ بند کیا ہوا ہے۔ بتائیں پھر اس ملک کی حالت کیسے سنورے گی؟
لوگ اُکتا چکے ہیں یا اس نظام کے سامنے اُنہوں نے اپنے ہینڈز اَپ کر دیے ہیں۔ اس ملک کے ساتھ سب سے بڑی زیادتی امید کے دروازوں کا بند ہونا ہے۔ لوگوں کو خیر کی توقع نہیں رہی۔ اسی لیے ہر کوئی یہاں سے بھاگنے کی کر رہا ہے‘ پڑھے لکھوںکو کوئی جاب ملے تو باہر جانے کی کر رہے ہیں‘ جو بیچارے صرف جسمانی مزدوری کے قابل ہیں وہ بھی جان جوکھوں میں ڈال کر باہر جانا چاہتے ہیں۔ لیکن حکمران طبقات کو دیکھئے‘ دندناتے پھر رہے ہیں۔ لمبی لمبی گاڑیوں سے سڑکیں بھری پڑی ہیں۔ مہنگے ریستورانوں میں شام کو جگہ نہیں ملتی۔ جو بغیر خاص مشروب کے کھانا نہیں کھاتے‘ پسندیدہ مشروبات کیلئے وہ پیسے ادا کرنے کو تیار ہوتے ہیں جس سے ایک غریب خاندان کا پورا مہینہ چل جائے۔
عرصۂ دراز سے میں کیا لکھتا آ رہا ہوں؟ کہ فکرِ مملکت کو ایک طرف رکھیں اور اپنی شاموں کی فکر کریں۔ خلوت میں جتنی عیش کر سکتے ہیں‘ کریں کیونکہ یہاں کچھ ہونا ہوانا نہیں‘ یہاں سب اُلٹے کام ہونے ہیں اور لوٹ مار کا بازار گرم رہنا ہے۔ یہاں تو یوں لگتا ہے کہ کسی کو ادراک ہی نہیں کہ ہم جو بحیثیتِ قوم مجموعی طور پرکر رہے ہیں اُس کے نتائج کیا ہوں گے۔ سوویت یونین کا حشر کیا ہوا؟ یوگوسلاویہ کا کیا بنا‘ لگتا ہے ان دونوں ممالک کا ہم نے کبھی سنا ہی نہیں۔ آج یوکرین کا حشرکیا ہو رہا ہے‘ یوکرین کا حکمران طبقہ امریکہ کی باتوں میں آ گیا اور روس کے ساتھ جنگ کے حالات پیدا ہو گئے۔ امریکہ بخوبی جانتا تھا کہ نیٹو کو یوکرین کے اندر گھسیڑیں گے تو روس برداشت نہیں کرے گا۔ امریکہ تو اپنی گیم کھیل رہا تھا‘ یوکرین والوں کو سمجھ آنی چاہیے تھی کہ امریکی موسیقی کے نرغے میں آ کر اُن کے ملک کا کیا بنے گا۔ مغربی مین سٹریم میڈیا سے تو آپ کو یہ پتا نہیں چلے گا لیکن اس جنگ میں یوکرین کے تقریباً پانچ لاکھ فوجی مارے جا چکے ہیں۔ اب یوکرین کے پاس فوجیوں کی کمی ہے۔ اسلحے اور گولہ بارود کی تو کمی ہے ہی لیکن فوج کی ضرورت کے مطابق بھرتیاں نہیں ہو پا رہیں۔ امریکہ پھر بھی چاہے گا کہ آخری یوکرینی تک یوکرین لڑتا رہے لیکن یوکرین تباہ ہو جائے گا۔
اپنے بارے میں ہم کیا کہتے ہیں کہ سلطنتِ مغلیہ کے جانشین ہیں۔ سلطنتِ مغلیہ کے زوال کی داستان ہم نے نہیں پڑھی؟ اورنگزیب عالمگیر کتنا طاقتور شہنشاہ مانا جاتا تھا لیکن اُس کی وفات کے تیس سال کے اندر ایران کے نادر شاہ نے مغل سلطنت پر حملہ کیا اور مغلوں میں وہ طاقت نہ رہی تھی کہ اُس حملے کا مقابلہ کریں۔ دہلی دربار کی ساری دولت نادر شاہ لوٹ کر چلا گیا اور جو خوبرو چہرہ نظر آیا وہ بھی نادر شاہی فوج کے ہتھے چڑھا۔ تو ہم کس بات پر گھمنڈ کرتے آئے ہیں؟ کہانیوں اور افسانوں پر ہم جیتے رہے ہیں۔ افغانستان میں امریکہ کی جنگوں میں حصہ لیا تو کچھ ڈالر اور ساز و سامان ملتا رہا اور ہمارے حکمران اتراتے رہے کہ اُن کی اہمیت اتنی ہے کہ اُن کے بغیر امریکہ کا گزارہ نہیں چل سکتا۔ وہ جنگیں ختم ہوئیں تو امریکہ نے ہمیں چلتا کیا۔ کوئی تو بتائے ہمارے ساتھ ہونا کیاہے؟ کوئی یہ بھی بتائے کہ اپنے حالات کے بارے میں ہمیں عقل کب آنی ہے؟