"AYA" (space) message & send to 7575

پاکستانی قوم اپنی اصلیت کو لوٹ رہی ہے

اس میں کوئی رونے یا ماتم کی بات نہیں۔ ہمارا مزاج اور خمیر مختلف ہے‘ قانون کی حکمرانی اور آئین کی بالادستی جیسے تصورات ایک خول کی طرح ہم پر چڑھائے گئے تھے۔ ہماری تاریخ آپ دیکھ لیجیے‘ ایسے خیالات سے ہمارا کبھی لینا دینا نہ تھا۔ یہ تو انگریز آئے اور اپنی طرزِ حکمرانی انہوں نے ہندوستان پر جمائی اور وقت گزرنے کے ساتھ قانون کے ضابطے مرتب ہوئے اور یہاں کی آبادی یا یوں کہیے پڑھے لکھے لوگ ان سے روشناس ہوتے گئے۔ کریمنل پروسیجر کوڈ‘ انڈین پینل کوڈ‘ قانونِ شہادت یہ ہمارے کہاں تھے؟ یہ تو انگریزوں نے لکھے اور اپنی حکمرانی کا حصہ ایسے قوانین کو بنا دیا۔ یہ کہ عوام کی بھی شمولیت حکومت کے کاروبار میں ہونی چاہیے‘ یہ یہاں کا تصور تو کبھی نہ تھا ۔ یہاں تو چاہے ہندو تھے یا مسلمان حاکم‘ مطلق العنان ہی ہوتے تھے۔ آج کی زبان میں انہیں آمر ہی کہا جائے گا۔ جو وہ کہتے تھے وہی قانون ہوتا تھا۔ حکومت ان کی‘ فوج ان کی‘ نظامِ انصاف ان کا اور ریاستی دولت ان کی۔
انگریزوں نے ہندوستان کو بزورِ شمشیر و بندوق فتح کیا‘ یہاں کے وسائل اپنے استعمال میں لائے جیسا کہ ہر فاتح کرتا ہے‘ لیکن ساتھ ہی انہوں نے ایک ایسی حکمرانی کی بساط بچھائی جس میں نمائندہ حکومت کا تصور جنم لینے لگا۔ یہاں کے باسیوں کو کیا پتا تھا کہ سیاسی پارٹیاں کیا ہوتی ہیں۔ یہ تو ایک انگریز نے انڈین نیشنل کانگریس کی بنیاد ڈالی اور اسی انگریز کی بنائی گئی جماعت کے پلیٹ فارم سے پڑھے لکھے ہندوستانی نمائندۂ حکومت بنے اور کچھ عرصہ بعد آزادی کی باتیں کرنے لگے۔ اور یہ جو پڑھے لکھے ہندوستانی تھے یہ مکتبوں اور مندروں کے پڑھے ہوئے نہیں تھے بلکہ انہوں نے انگریزی تعلیم حاصل کی اور اسی تعلیم کی بدولت ان کے ذہنوں میں جمہوریت اور نمائندہ حکومت کے خیالات پیدا ہوئے۔ اخبارات اور پریس کا تصور کہاں سے آیا؟ انتخابات چاہے شروع میں بہت محدود تھے‘ کی ریت کس نے ڈالی؟ ان خیالات کا یہاں آنا اور پھر ان کی ترویج انگریز سرکار کی وجہ سے ہوئی۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں۔ علامہ محمد اقبال‘ محمد علی جناح‘ موہن داس کرم چند گاندھی‘ موتی لال نہرو‘ جواہر لال نہرو‘ حسین شہید سہروردی اور پتا نہیں کتنے اور سب انگریزی تعلیم و تربیت کے پراڈکٹ تھے۔ ہندوستان کی تحریکِ آزادی کا مؤثر ترین ہتھیار مغربی افکار تھے نہ کہ کوئی اور عقائد۔
27ویں آئینی ترمیم کا پھر رونا کیا‘ آزاد عدلیہ کا تصور بھی ہمارا تو کبھی نہ تھا۔ یہ بھی سمندر پار سے آیا۔ جیسے لنڈے کے کپڑے آتے کہیں اور سے ہیں اور حسب ضرورت پہن لیے جاتے ہیں‘ جمہوریت کے تمام کپڑے ہمیں باہر سے ملے اور ہمیں پہننے پڑے۔ لیکن پہنے مجبوری سے کیونکہ یہ باہر کے افکار صحیح طور پر ہمیں کبھی فِٹ نہیں آئے۔ ان میں ہم نے اپنے آپ کو کبھی آسودہ محسوس نہ کیا۔ اس لیے بس نیا ملک معرض وجودمیں آیا ہی تھا اور ان بیگانے تصورات پر پیوندکاری ہونے لگی۔ جب سرحد‘ پنجاب اور سندھ کے وزرائے اعلیٰ کو محکمانہ طریقے سے ہٹایا گیا تو تقدسِ انتخاب پر شروع دن سے سوالیہ نشان لگنے لگے۔ آئین جلد بن نہ سکا اور حکومتوں کا کھلواڑ ہوتا رہا اور تب کی فیڈرل کورٹ من مانی تبدیلیوں پر نظریۂ ضرورت کی مہر ثبت کرتی رہی۔ پھر آئین اور اسمبلیاں برخاست ہوئیں اور لمبے عرصوں تک آمروں نے اپنا تسلط جمایا۔ وجہ یہی تھی کہ قانون کی حکمرانی کا درس تو انگریز دے گئے لیکن آئین اور قانون کی حاکمیت کا تصور ہمارے مزاج اور خمیر سے مطابقت نہیں رکھتے تھے۔ ایک ایک کرکے ان تصورات کا یہاں ستیاناس ہوتا رہا اور آج 78برس بعد بنیادی بات یہ نہیں کہ جمہوریت کے اصول روندے جا رہے ہیں بلکہ یہ کہ ہمارے کرتے دھرتوں کا مزاج ہی ایسا رہا کہ جمہوری اصولوں کی پاسداری ان کیلئے ہمیشہ ایک تکلیف دہ امر ثابت ہوا۔
ہندوستان ہم سے بہتر رہا کیونکہ وہاں کے شروع کے لیڈر بڑے آدمی تھے۔ لیکن اب دیکھیے جب ان بڑے لیڈروں کی جگہ یہ فرقہ پرست لیڈر آئے تو وہ ہمارے نقش قدم پر چلنے لگے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ہماری نظریاتی بولی کچھ اور ہے اور ہندوستان میں بی جے پی والے ہندو مالا جپتے ہیں۔ ہندوستان کو چھوڑیے‘ ہندو فرقہ پرستوں کے ہوتے ہوئے بھی جمہوریت تو وہاں قائم ہے۔ باقی اسلامی دنیا کو دیکھیے۔ بیشتر مسلم ممالک یورپی تسلط کے نیچے رہے۔ محکوم بھی تھے تو جمہوری تصورات سے کچھ آشنائی ملی لیکن بیشتر ایسا ہوا کہ آزادی ملنے کے بعد جمہوریت قائم نہ ہو سکی اور آمریت کی کشش زیادہ رہی۔ یہ مثالیں سامنے رکھیں تو لگتا ہے کہ قانون کی حکمرانی اور جمہوری اصول ہم پر صحیح نہیں بیٹھتے۔ مراکش‘ الجزائر‘ تیونس‘ لیبیا‘ مصر‘ شام تمام کے تمام غیرجمہوری شکنجوں میں کَسے ہوئے ہیں۔ اور مالدار عرب بھائیوں کی تو بات ہی نہیں کرنی چاہیے‘ ان کی طرزِ حکمرانی اپنی قسم کی ہے۔
ہمارے ہاں آئینی پارچہ جات کے ہوتے ہوئے بھی قانون کی حکمرانی کہاں رہی ہے؟ کسی آئینی دستاویز کے بجائے ہماری ریاست کی بنیاد تھانے اور پٹوارخانے ہیں۔ ان اداروں میں کون سی قانون کی حکمرانی ہے؟ پہلے تھانیداری تھانوں تک رہتی تھی حالیہ سالوں میں تھانیداری کا پھیلاؤ کچھ زیادہ ہی ہو گیا ہے۔ ایسے میں آئین‘ قانون اور عدالتوں کی وقعت کیا۔ 27ویں ترمیم نے نئی حقیقتوں کو جنم نہیں دیا بلکہ پہلے سے موجود حقیقتوں پر قانون کا روپ چڑھا دیا ہے۔ مثال کے طور پر سپریم کورٹ بے وقعت پہلے ہی ہو چکی تھی اب اس کی بے وقعتی کو قانونی زبان کے دائرے میں ڈال دیا گیا ہے۔ آئینی تشریح کا حق تو عملاً پہلے ہی سپریم کورٹ سے لے لیا گیا تھا۔ اب اس حقیقت کو ایک قانونی زبان دے دی گئی ہے۔ جہاں تک شق 243میں ترمیم کا تعلق ہے‘ قوم کو پہلے ہی سمجھ تھی کہ فورسز کی کمان کا فلسفہ کیا ہے۔ اب بات تھوڑی واضح ہو گئی ہے لیکن اصل میں خدوخال تو وہی ہیں۔
بہرحال بنیادی بات یہ ہے کہ ہمارا 78سالہ تجربہ بتاتا ہے کہ جمہوریت چلانا ہمارے بس کی بات نہیں۔ جمہوری قاعدے قانون کے مطابق ہم ریاست کا کاروبار نہیں چلا سکے۔ ہر نازک موقع پر جمہوریت پر شب خون پڑا اور فہرست اتنی طویل ہے کہ پھر سے بنانے لگیں تو شروع کے سالوں تک جانا پڑتا ہے۔ ایوب خان‘ یحییٰ خان‘ ضیاالحق کے نام کیا دہراتے رہیں‘ محسوس یوں ہوتا ہے کہ سویلین یا کوئی اور‘ ہر ایک کوئی ایک ہی سانچے میں ڈھلا ہوا ہے۔ انتخابات ایسے ہوں کہ ووٹوں کی گنتی پوری نہ ہو اور نتائج کا اپنی مرضی سے اعلان کر دیا جائے تو پیچھے کیا رہ جاتا ہے۔ اور اب تو ارتکازِ اقتدار اتنا ہو گیا ہے کہ جلد تبدیلی کے کوئی امکان نظر نہیں آتے۔ پہلے بھی ایسے لمبے ادوار رہے ہیں‘ ایوب‘ یحییٰ وغیرہ وغیرہ‘ ایک اور سہی۔ لگتا ہے ہمارے ستارو ں کا یہی فرمان ہے۔
پر سوچنے کا مقام تو ہے۔ یہودی ریاست یعنی اسرائیل کا جبر پوری اسلامی دنیا کے جبر سے زیادہ ثابت ہوا ہے۔ حالیہ معرکوں نے جہاں اسرائیلی طاقت کو نمایاں کرکے دکھایا وہاں تمام مسلمان ممالک کی حیثیت کو بے نقاب کر دیا۔ آبادی کے لحاظ سے وہ چھوٹا سا ملک تمام اطراف حاوی رہا۔ فرق یہ ہے کہ بمقابلہ اسلامی دنیا اندرونی طور پراسرائیل میں جمہوریت اور قانون کی حکمرانی قائم ہے۔ اسرائیلی فوج ظلم باہر کرتی ہے‘ اندرونِ اسرائیل جمہوریت کار فرما ہے۔ آگے نتیجہ خود نکالا جا سکتا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں