اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

خونِ مسلم کی ارزانی

مشرقی یروشلم کے علاقے میں قریب دو ہفتے سے جاری اسرائیلی افواج کی سفاکانہ کارروائیوں کا سلسلہ گزشتہ روز سے غزہ کے علاقوں پر اسرائیلی فضائی بمباری تک پہنچ چکا ہے۔ یہ واقعات فلسطینی مکینوں کی جانب سے اپنے آبائی مکانوں کو صہیونی آبادکاروں کے ناجائز تسلط سے بچانے کی کوششوں کے نتیجے میں شروع ہوئے جس کی انتہائی صورت یوم القدس اور لیلۃ القدر کے موقع پر بیت المقدس میں عبادت گزار مسلمانوں پر اسرائیلی سکیورٹی فورسز کی پُرتشدد کارروائیاں تھیں‘ ان واقعات میں سینکڑوں افراد زخمی ہو چکے ہیں۔ غزہ کے محصور علاقے پر اسرائیلی فضائی کارروائیوں میں درجنوں فلسطینی شہریوں کی شہادتوں کی اطلاعات ہیں۔ اسرائیلی سکیورٹی فورسز کی ان بے رحمانہ کارروائیوں پر پوری دنیا کی نظریں ہیں۔

متعدد ممالک کی جانب سے ان واقعات کی مذمت بھی کی گئی ہے؛ تاہم اسرائیلی کے پنجۂ استبداد کو قابو کرنے کیلئے جس قوت اور یکجہتی کی ضرورت ہے وہ مسلم دنیا میں دکھائی نہیں دیتی۔ جب صورتحال یہ ہو تو غیرمسلم دنیا سے کیا توقع کی جا سکتی ہے؟ بیت المقدس کی صورتحال پر اسلامی تعاون تنظیم کا ایک ورچوئل اجلاس حالیہ دنوں منعقد ہوا جس میں مسلم ممالک کی جانب سے ایک مشترکہ مذمتی بیان جاری کرتے ہوئے عالمی برادری سے فلسطینی عوام کے تحفظ کیلئے کارروائی کا مطالبہ کیا گیا۔ 57 مسلم ممالک کی نمائندگی کرنے والی یہ عالم اسلام کی سب سے بڑی تنظیم ہے جس کے مستقل مندوبین اقوام متحدہ اور یورپی یونین میں بھی تعینات ہیں مگر مسلم دنیا کی داخلی صورتحال‘ دوریوں اور رنجشوں کی وجہ سے مسلم دنیا کی اس ’’مشترکہ آواز‘‘ کو وہ وزن حاصل نہیں ہو سکا جو ایک ارب اسی کروڑ آبادی کی حامل مسلم دنیا کو اصولی طور پر حاصل ہونا چاہیے۔

عالم اسلام کے بنیادی علاقائی مسائل میں مسئلہ فلسطین اور مسئلہ کشمیر سرفہرست ہیں‘ دونوں کی نوعیت میں بھی ایک حد تک مماثلت ہے‘ اور دونوں ہی پون صدی سے حل طلب چلے آ رہے ہیں مگر ابھی تک ایسی کوئی پیشرفت نظر نہیں آتی جسے ان علاقائی‘ انسانی اور سیاسی حقوق کے متعلق مسائل کے باب میں فیصلہ کن قرار دیا جا سکے۔ 27 ہزار ارب ڈالر جی ڈی پی کی حامل مسلم دنیاکی شنوائی نہ ہونا ایک المیہ ہے ‘ جس کے اسباب یہ ہیں کہ ذیلی مسائل اور تنازعات نے مسلم دنیا کو تقسیم اور اس کے مجموعی وزن کو بہت کم کر دیا ہے؛ چنانچہ ارض فلسطین میں صہیونی ہوں یا مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی‘ خونِ مسلم کی ارزانی بدستور جاری ہے اور عالم اسلام کے پاس اس ننگی جارحیت کی مذمت کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ صہیونی فورسز کی جانب سے بیت المقدس کی بے حرمتی اور مسلمان عبادت گزاروں پر تشدد کے تازہ واقعات اور غزہ کے مظلوم و محصور مسلمانوں کے گھروں پر اسرائیلی فضائیہ کے حملے ایک بار پھر مسلم دنیا میں اخوت کی ضرورت کا احساس دلا رہے ہیں۔ مسلم دنیا دولت‘ طاقت‘ علاقے‘ آبادی غرض ہر اعتبار سے دنیا کی ایک بااثر برادری بننے کی پوری اہلیت رکھتی ہے‘ صرف ایک ہی رکاوٹ ہے کہ آپسی اتحاد اور اتفاق موجود نہیں۔ 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement