اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

وزرا کی کارکردگی اور وزیر اعظم کا اطمینان

وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ روز ٹیلی فون پر عوام کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے وزرا کی کارکردگی سے متعلق ایک سوال پر کہا کہ ضروری نہیں ٹیم کا ہر کھلاڑی سپر سٹار ہو‘ مگر سب اچھا کام کررہے ہیں اور جو اچھا کام نہیں کرے گا وہ گھر جائے گا۔ اپنی ٹیم پر وزیر اعظم کا یہ اعتماد خوش آئند ہے‘ اس سے حکومت میں اچھی ورکنگ ریلیشن شپ اور رفاقتِ کار کا احساس پیدا ہوتا ہے؛ تاہم عملی کارکردگی کا بنظر غائر جائزہ لینے کیلئے اعتماد کی اس فضا سے نکل کر اور حقیقت کی دنیا میں قدم رکھ کر دیکھنا ضروری ہے۔ وزرا کی کارکردگی کو اگر اس تناظر میں دیکھا جائے تو حقیقت اس تصور سے بہت مختلف نظر آئے گی وزیر اعظم جس کا اظہار کررہے ہیں۔

عوامی نقطہ نظر سے حکومتی کارکردگی کی کسوٹی یہ ہے کہ کسی دور میں عوام کیلئے سہولیات کا لیول کیا ہے‘ مہنگائی کتنی ہے اور روزگار کے مواقع کی صورتحال کیسی ہے۔ موجودہ حکومت ان میں سے کسی اشاریے میں بھی عوامی اعتماد حاصل نہیں کر پائی۔ مہنگائی میں بے پناہ اضافہ اور روزگار کے وسائل میں خاطر خواہ کمی عوام کے لیے بلاشبہ گہری تشویش کا موجب ہے اور وزارتِ خزانہ اور صنعت و پیداوار اس ناقص صورتحال سے بری الذمہ نہیں۔ اسی طرح تعلیم اور صحت کے شعبے اور زراعت کی ناقص کارکردگی بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ یہ اسی زرعی بحران کا نتیجہ ہے کہ پاکستان کو ایک طویل عرصے بعد گزشتہ برس ملکی ضرورت کیلئے گندم درآمد کرنا پڑی اور چینی کی قیمتوں کو مناسب حد تک لانے کیلئے یہ جنس بھی باہر سے منگوائی گئی۔ ٹیکسٹائل ملک کی سب سے بڑی برآمدی صنعت ہے مگر اس صنعت کا خام مال پیدا کرنے کی صلاحیت اب ناقابلِ یقین حد تک گر چکی ہے۔ 2012ء میں ملک میں ایک کروڑ چالیس لاکھ گانٹھیں روئی پیدا ہوئی تھی مگر گزشتہ برس کی پیداوار صرف 56 لاکھ گانٹھیں تھی؛ چنانچہ رواں مالی سال کے پہلے نو ماہ کے دوران کپاس کی درآمد پر ایک ارب 84 کروڑ ڈالر خرچ کیے جا چکے ہیں۔ بقیہ تین ماہ کو ملائیں تو اس سال روئی کی درآمد قریب اڑھائی ارب ڈالر تک جا پہنچے گی۔ اس طرح جی ایس پی پلس یا امریکہ وغیر ہ سے لاکھ جتن سے حاصل ہونے والی ٹیکسٹائل مصنوعات کی برآمدی سہولیات اور ٹیکسٹائل کے شعبے کو دی جانے والی بھاری سبسڈیز سے جو کچھ حاصل ہوتا ہے‘ اس کا ایک بڑا حصہ الٹے ہاتھ کپاس کے غیرملکی تاجروں کی جیبوں میں چلا جاتا ہے۔

ہمارے ملک کا زرعی رقبہ اور موسم بہترین معیار کی کپاس اگانے کیلئے سازگار ہے مگر نئے بیج اور فصل کے معیار کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کیلئے جو سائنسی اور فنی لوازمات درکار ہیں ان پر نہ حکومتی سرمایہ کاری ہے اور نہ توجہ۔ زرعی شعبے کے تحقیقی ادارے صرف دکھاوے کیلئے ہیں‘ ملکی زراعت کو حقیقی ترقی دینے کیلئے ان اداروں سے کبھی کچھ بن نہیں پایا‘ مگر یہ کہ ہم زراعت کو اپنی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی اور ملک میں روزگار فراہم کرنے والا سب سے بڑا شعبہ تصور کرتے ہیں۔ اسی طرح لائیوسٹاک اور ڈیری ڈویلپمنٹ میں کیا ترقی ہوئی؟ ہمارے ملک کی دیسی گائے‘ بھینس اور بھیڑ‘ بکری کی نسلوں کو بڑھانے کیلئے کوئی معیاری اور قابل ذکر پیشرفت نظر نہیں آتی۔

اگر ان دیسی نسلوں کو بڑھاوا دینے کی کوشش کی جاتی تو ملک میں دودھ اور گوشت کی ضرورت کو پورا کرنے میں ضرور سہولت پیدا ہوتی‘ نیز عوام کو خالص خوراک میسر آتی جو انسانی صحت کی ایک بنیادی ضرورت ہے‘ مگر ہماری حکومتوں نے نہ خوراک کی ضروریات کا اندازہ لگایا‘ نہ ہی اسے مہیا کرنے کی جانب توجہ دی۔ بتدریج ریاست خود کو ان معاملات سے الگ کرتی گئی جو آئین کی رُو سے شہریوں کے بنیادی حقوق تصور ہوتے ہیں۔ کارکردگی کی حقیقت تو یہ ہے‘ باوجود اس کے وزیر اعظم صاحب اگر اپنی ٹیم کی کارکردگی پر اطمینان ظاہر کریں تو مشکل یہ ہے کہ اصلاح کا جو غیرمعمولی خلا پایا جاتا ہے اس کا پُر ہونا شاید ممکن نہ رہے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement