اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

پارلیمانی روایات کا احترام ضروری !

 قومی اسمبلی کے بجٹ سیشن کے آغاز ہی میں حکومت اور حزب اختلاف کا رویہ بڑا مایوس کن رہا ہے۔ بجٹ کے روز وزیر خزانہ کی تقریر کے دوران حزب اختلاف کا شور شرابا ہو یا دو روز قبل بجٹ پر بحث کے آغاز میں قائد حزب اختلاف کی تقریر کے موقع پر حکومتی ارکان کا رویہ‘ پارلیمانی جمہوریت کی اقدار کے سراسر منافی ہے۔ جمہوریت بڑا وسیع المشرب طرزِ سیاست ہے جس کی بنیاد اختلاف رائے کے احترام پر ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو جمہوریت کو اس کے برعکس سیاسی نظریات سے جدا کرنا ممکن نہیں‘ مگر بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے ہاں جمہوریت میں یہ حسن پیدا نہیں ہو سکا۔ حزب اختلاف اور حکومت نظریاتی و سیاسی سطح پر اتنا بلند نہیں ہو سکیں کہ جمہوریت کی خاطر ذاتیات پر ملک و قوم کو ترجیح دینا سیکھ جائیں۔ باعث تشویش بات یہ ہے کہ وہ پارلیمانی شخصیات جو اپنے علم‘ تجربے اور قد کاٹھ میں نمایاں مقام رکھتی ہیں‘ اِن ہاؤس کھینچا تانی میں وہ بھی کسی سے پیچھے رہنا اپنے لیے کسرِ شان سمجھتی ہیں۔

ان حالات میں برداشت اور احترام کی اقدار کیونکر پروان چڑھ سکیں گی؟ حالیہ بجٹ اجلاس سے تھوڑا پیچھے جائیں تو جناب شاہد خاقان عباسی کے پارلیمانی محاوروں کو کون بھول سکتا ہے اور تازہ صورتحال میں دیکھیں تو بجٹ پر کھلی بحث کے آغاز پر قائد حزب اختلاف کی تقریر کے دوران ہلڑ بازی کرنے والوں کی قیادت وزیر خارجہ جناب شاہ محمود قریشی کرتے نظر آئے۔ جب شاہد خاقان عباسی اور شاہ محمود قریشی جیسے سینئر پارلیمنٹیرین ہی پارلیمان میں تحمل اور احترام کی روایت قائم کرنے میں سنجیدہ نہ ہوں تو دوسروںسے کیا امید کی جا سکتی ہے؛ چنانچہ پیر اور منگل کے روز ملک کے اعلیٰ ترین مقتدر ایوان میں جو مناظر دیکھے گئے یہ حکومت اور حزب اختلاف‘ دونوں جانب کے سینئر سیاستدانوں کی ناکامی کی وجہ سے ہیں۔ یہ اس کا ثبوت ہے کہ دونوں جانب کے سینئر ترین سیاستدان اپنے دھڑوں میں جمہوری اقدار اور پارلیمانی روایات کے ابلاغ میں ناکام ہیں۔

اس سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ سیاسی قائدین کو اس نقصان کا ادراک نہیں جو اُن کے منفی رویے سے پارلیمانی نظامِ سیاست کو پہنچ رہا ہے۔ پارلیمانی جمہوریت میں حکومت اور حزب اختلاف کی حیثیت گاڑی کے دو پہیوں جیسی ہے۔ اختلاف کہاں نہیں ہوتے‘ مگر ایک دوسرے کو سننے کی تہذیب پارلیمانی ادارے کی روایت سمجھی جاتی ہے۔ اختلافات اور تنقید کو مدلل انداز سے بیان کیا جاتا ہے‘ کوئی کسی پر کتابیں نہیں اچھالتا‘ گریبان نہیں پکڑتا‘ گالی نہیں دیتا۔ جمہوری پارلیمانی طرز سیاست کے ثمرات سے فائدہ اٹھانے کے لیے یہ ایک بنیادی شرط ہے۔ اگر حکومت حزبِ اختلاف کو مفلوج اور مرعوب کر دے تو وہ اس نظام سے محروم ہو جاتی ہے جو حکومت گاڑی میں بریک کا کام کرتا ہے اور اگر حزب اختلاف حکومت کیلئے بلا وجہ رکاوٹیں کھڑی کرتی جائے تو ملکی نظام کیلئے خطرناک ہے‘ اس لیے ضروری ہے کہ دونوں جانب کے پارلیمانی دھڑے اپنے اپنے دائرہ کار تک محدود رہیں۔

حزب اختلاف کو اگر بجٹ پر تحفظات ہیں تو ان کو بیان کرنے کا یہ طریقہ نہیں کہ ڈیسک بجا بجا کر اور کہرام بپا کر کے وزیر خزانہ کو اس کی تقریر کے دوران ہی روکنے کی کوشش کی جائے۔ چاہیے کہ تقریر کو متانت سے سناجائے‘ اہم نکات اور بجٹ دستاویزات میں جن نکات پر شکایات ہیں انہیں بیان کرنے کیلئے آپ کے پاس پارلیمانی فورم بھی ہے اور ذرائع ابلاغ بھی۔ یہ ہمارا احساسِ کمتری ہے جو سمجھتے ہیں کہ کسی کو بات مکمل کرنے کا موقع دینے کو اگلے کا موقف تسلیم کر لینا تصور کیا جائے گا۔ اس سے صرف یہ ہوتا ہے کہ آوازوں کے شور میں نہ پہلے فریق کی بات کسی کے پلے پڑتی ہے اور نہ دوسرے کی تنقید کسی کی سمجھ آتی ہے۔ بجٹ تجاویز پر بحث پارلیمانی دھڑوں کا حق ہے مگر حکومت نے قائدِ حزب اختلاف کو اس حق سے عملاً محروم کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ ملکی معاملات کو من مرضی سے چلائے گی۔ اصولی طور پر حکومت کو اپنی بجٹ تجاویز کا دفاع کرنا چاہیے تھا مگر اس نے تنقید اور سوالات کا ناطقہ بند کرکے خود ہی کئی سوال پیدا کر دیے ہیں۔ بجٹ سیشن سے قبل حکومت اور حزب اختلاف کے متعلقہ پارلیمانی کمیٹی کے ارکان میں بجٹ سیشن کی حکمت عملی طے ہوئی تھی جس میں اتفاق کیا گیا تھاکہ موجودہ سیشن 30 جون تک چلے گا‘ بجٹ منظوری کی کارروائی 29 جون کو ہو گی اور دونوں جانب کے پارلیمانی قائدین کی تقریروں میں رکاوٹ نہیں ڈالی جائے گی‘ مگر عملی طور پر جو کچھ ہوا اس نے ہر طرح کی یقین دہانی کو اڑا کر رکھ دیا۔ کوئی بھی اس خاک بازی میں دوسرے سے پیچھے رہنا نہیں چاہتا۔

وہ ایک تکلیف دہ منظر تھا جب اعلیٰ تعلیم یافتہ‘ مہذب اور صاحبانِ اقدار پارلیمانی رہنماؤں کو بجٹ سیشن میں شور شرابا کرتے‘ کتابیں پھینکتے اور پارلیمانی عمل میں رکاوٹ ڈالتے دیکھا گیا۔ پیر اور منگل کے روز جو ہوا‘ ایسا لگ رہا تھا کہ حکومت حزبِ اختلاف سے محض بدلا لینے کے لیے ایسا کر رہی ہے ورنہ بجٹ سیشن میں حکومت کو اپنے پیش کردہ معاشی کیس کا دفاع کرنا چاہیے تھا۔ حکومت کے پاس یہ ایک اچھا موقع تھا کہ وہ حزب اختلاف کے رہنماؤں پر بھی اپنی کامیابی کی دھاک بٹھانے کیلئے اس موقع کو استعمال کرتی‘ مگر حکومت نے صرف نوک جھونک میں برابری کی سطح پر اترنے کے خیال میں بجٹ بحث کے عمل کے آغاز ہی میں وہ کھنڈت ڈال دی ہے کہ اب شاید اس ڈیمیج کو کوَر کرنا 30 جون تک جاری رہنے والے اس پارلیمانی اجلاس میں ممکن نہ ہو۔یہ ہمارے پارلیمنٹیریز کے لیے لمحہ فکریہ ہے!

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement