اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

بھارتی اعترافات اور فیٹف کی شفافیت کا سوال

پاکستان کے خلاف فنانشل ایکشن ٹاسک فورس پر بھارت دباؤ ایک کھلا راز تھا ‘مگربھارتی وزیر خارجہ جے شنکر کے حالیہ اعتراف نے اس پر مہرِ تصدیق ثبت کردی ہے۔ بھارتی وزیر خارجہ کا اگلے روز ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ پاکستان کو گرے لسٹ میں رکھنا مودی حکومت نے یقینی بنایا اور بھارتی دباؤ پر پاکستان کو گرے لسٹ سے نہیں نکالا گیا ۔ پاکستانی حکام ایک مدت سے اسی نوعیت کے خدشات کا اظہار کرتے آرہے تھے کہ عالمی معاشی نظام کو منی لانڈرنگ اور ٹیرر فنانسنگ سے محفوظ کرنے کے دعویدار ادارے کے فیصلے  سیاسی اثر و رسوخ کے زیرِ اثر ہیں۔گزشتہ ماہ کے آخر میں جب ایف اے ٹی ایف نے 27 میں سے 26اہداف حاصل کر نے کے باوجود پاکستان کو گرے لسٹ میں برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا تو وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے یہ سوال اٹھایا تھا کہ دیکھنا ہو گا کہ ایف اے ٹی ایف تکنیکی فورم ہے یا سیاسی۔ 27 میں سے 26 اہداف حاصل کرنے اور 27ویں پر نمایاں پیشرفت کے شواہد ملنے کے باوجود پاکستان کو گرے لسٹ میں رکھنے کا فیصلہ واقعی حیران کن اور معنی خیز تھا۔بھارتی وزیر خارجہ کے اعترافات نے ان اس حیرت کو یقین میں بدل دیا ہے اور پاکستانی قیادت کے خدشات کو درست ثابت کیا ہے۔

بھارتی وزیر خارجہ کے اس اعتراف نے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی شفافیت اورغیر جانبداری پر بھی کئی سوال کھڑے کر دیے ہیں۔ یہ سوچ کر حیرت ہوتی ہے کہ عالمی سطح پر شفافیت اورسٹینڈرڈ یقینی بنانے کے دعویدار اداروں کی داخلی حالت یہ ہے کہ بعض ارکان انہیں اپنے علاقائی مقاصد کے لیے آلہ کار کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ بھارتی وزیر خارجہ کے اقرار کے بعد اب اس معاملے میں شک کی کیا گنجائش رہ جاتی ہے؟ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس خود کو منی لانڈرنگ اور ٹیرر فنانسنگ کی روک تھام کے لیے پالیسیاں وضع کرنے والا بین الحکومتی ٹاسک فورس قرار دیتا ہے مگر بھارتی وزیر خارجہ کے اس بیان کی روشنی میں ہمیں یہ ماننے میں تامل ہے کہ یہ ٹاسک فورس اپنے مذکورہ وظائف کامل شفافیت کے ساتھ انجام دیتی ہو گی ۔ اگر بھارت اس فورم کو پاکستان کے خلاف برت سکتا ہے تو کہیں کوئی دوسرا کسی تیسرے کے خلاف اس ٹاسک فورس سے اپنا حساب برابر کر رہا ہو گا۔ ان حالات میں اس ادارے کی کیا وقعت باقی رہ جاتی ہے؟ یہ صورتحال عالمی نظام کے لیے شدید خطرات کی نشاندہی کرتی ہے۔عالمی معیارِ انصاف کا تقاضا کرتا ہے ‘ اگر بااثر دنیا کیلئے یا بااثر دنیا کے کاسہ لیسوں کے لیے الگ معیار ہوں گے اور دوسروں کے لیے الگ تو یہ صورتحال عالمی نظام کو خطرات سے دوچار کرے گی اور عالمی اداروں کے وجود پر سوال اٹھنا شروع ہو جائیں گے۔بھارتی وزیر خارجہ کے اس انکشاف کے بعد پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس سے اس معاملے میں وضاحت طلب کی جائے۔ پاکستان کی جانب سے‘بھارت کو ایف اے ٹی ایف کے مشترکہ فورم (ایشیا پیسفک جوائنٹ گروپ)کا شریک چیئر نامزد کئے جانے کے فیصلے کی مخالفت بھی اب مزید زور دار انداز سے کرنے کی ضرورت ہے۔ مارچ 2019ء میں اُس وقت کے وزیر خزانہ اسد عمر کی جانب سے اس حوالے سے ایف اے ٹی ایف کے صد ر کو خط لکھا گیا تھا کہ بھارت کو ایف اے ٹی ایف کی علاقائی تنظیم کی کو چیئر شپ سے ہٹایا جائے تا کہ پاکستان کے ریویو پراسس کی شفافیت اور معروضیت یقینی بنائی جا سکے ۔

پاکستان کی جانب سے ایف اے ٹی ایف کے صدر کو بھارت کی پاکستان دشمنی اور پاکستان کی جانب بھارت کے معاندانہ رویے کو واضح کرتے ہوئے اس یقین کا اظہار کیا گیا تھا کہ ایف اے ٹی ایف کے بین الاقوامی ریویو گروپ میں بھارت کی موجودگی پاکستان کیلئے منصفانہ نہیں ہو گی۔ قریب اڑھائی برس بعد پاکستان کے یہ خدشات اب درست ثابت ہو رہے ہیں؛ چنانچہ پاکستان کیلئے یہ رسمی بیان بازی‘ مذمت یا تنقید کی نذر کردینے کا موقع نہیں بلکہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی سطح پر اپنے خدشات اور اعتراضات کو بھارتی وزیر خارجہ کے اس بیان کی روشنی میں ثابت کرنے کا وقت ہے۔ یہ اس عالمی ٹاسک فورس کی فیصلہ ساز قوتوں کو آئینہ دکھانے کا موقع بھی ہے جو دنیا کے معاشی نظام کو منی لانڈرنگ اور ٹیرر فنانسنگ سے پاک کرنے کا دعویدار ہے۔پاکستان اپنے اقدامات سے پہلے ہی یہ واضح کر چکا ہے معاشی شفافیت ہمارا منشا ہے اور ہم عالمی برادری کے ساتھ مل کر اس معاملے میں معیار کی ہر شرط کو پورا کرنے کیلئے پر عزم ہیں مگر بھارت اس عالمی ادارے کو اگر پاکستان کے خلاف اپنی کینہ پروری کیلئے استعمال کر جائے تو یہ اس ادارے کے مینڈیٹ اور مشن کی بھی توہین ہے ؛چنانچہ ایف اے ٹی ایف کے فیصلہ سازوں کی قانونی اور اخلاقی ذمہ دار ی ہے کہ وہ اس سلسلے میں پاکستان کے تحفظات کا ازالہ کریں اور یقینی بنائیں کہ بھارت یا کوئی بھی دوسرا ملک کسی کے خلاف اس بین الاقوامی فورم کو اپنے منفی مقاصد کیلئے استعمال نہ کر سکے۔ شفافیت اور معروضیت عالمی اداروں کی اصل طاقت ہے‘ جو ادارے اس سے محروم ہو جائیں گے انہیں اپنی بقا کے خطرات کا سامنا کرنا پڑ ے گا۔ اگرچہ معاصر دنیا ایسی مثالی نہیں کہ ہر معاملے میں شفافیت اور معروضیت کا اعلیٰ ترین معیار ہر جگہ نظر آتا ہو مگر پھر بھی عالمی ادارے اپنے میکنزم میں ایسا بندوبست رکھتے ہیں جو انہیں کسی ایک رکن کا آلہ کار بننے سے بچاتا ہے؛ تاہم پاکستان کے کیس میں ایف اے ٹی ایف کی یہ حیثیت کافی کمزور دکھائی دیتی ہے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement