اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

طوفانی بارشوں سے تباہی: جامع منصوبہ بندی ناگزیر!

بدھ کے روز جڑواں شہروں اسلام آباد اور راولپنڈی میں علی الصبح طوفانی بارش سے ہنگامی صورتحال پیدا ہو گئی۔ بارش کے پانی سے کئی علاقے پانی میں ڈوب گئے۔ سڑکیں ندی نالوں کا منظر پیش کرنے لگیں۔ متعدد گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں سیلابی ریلے میں بہہ گئیں۔ سیکٹر ایف 10، ای 11 اور ڈی 12 کے علاقے بارش سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ پانی گھروں‘ پلازوں اور تہہ خانوں میں داخل ہو گیا۔ ای الیون ون کے ایک گھر کی بیسمنٹ میں پانی بھر جانے سے ایک خاتون اور اس کا آٹھ سالہ بچہ جاں بحق ہو گئے۔ اسلام آباد انتظامیہ کی جانب سے سیلابی صورتحال کی وجہ بادلوں کا پھٹنا بتائی گئی ہے جبکہ محکمہ موسمیات نے مون سون بارشوں کو سیلابی صورتِ حال کی وجہ قرار دیا ہے۔ راولپنڈی میں بھی نشیبی علاقے زیر آب آ گئے جبکہ نالہ لئی میں پانی کی سطح ساڑھے اکیس فٹ تک بلند ہونے پر پاک فوج کے دستے انتظامیہ کی مدد کو پہنچ گئے۔ امدادی کارروائیوں کے بعد وقتی طور پر صورتِ حال قابو میں ہے؛ تاہم محکمہ موسمیات کے اس انتباہ‘ کہ دوبارہ اسی شدت کے ساتھ بارش کا امکان ہے اور تیز بارشوں کا یہ سلسلہ آئندہ دو سے تین روز تک جاری رہے گا‘ سے صورتحال کے مزید گمبھیر ہونے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔ علاوہ ازیں گوجرانوالہ، سیالکوٹ اور ملک دیگر علاقوں میں بھی موسلا دھار بارشیں ہوئیں۔ ظفروال میں نالہ ڈیک میں اونچے درجے کا سیلاب ہے‘ جبکہ آزاد کشمیر اور ملک کے بالائی علاقوں میں مون سون کی طوفانی بارشوں کے ساتھ ساتھ لینڈ سلائیڈنگ کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ شاہراہ نیلم لینڈ سلائیڈنگ کے باعث ٹریفک کے لیے بند کردی گئی ہے۔

اس وقت پورا ملک مون سون کی بارشوں کی زد میں ہے۔ اگرچہ کئی علاقوں میں معمول سے زیادہ بارشیں ہوئی ہیں؛ تاہم یہ بارشیں بالکل غیر متوقع نہیں ہیں۔ محکمہ موسمیات سمیت متعلقہ ادارے اس حوالے سے پیشگی خبردار کر رہے تھے اور وفاقی و صوبائی انتظامیہ کو بھی مطلع اور متحرک کیا گیا تھا تاکہ سیلابی نالوں کی صفائی یقینی بنائی جا سکے‘ اس کے باوجود ہر سال کی طرح‘ امسال بھی جا بجا انتظامی کوتاہی دیکھنے میں آئی۔ وفاقی دارالحکومت کے سیلابی ریلے میں بہہ جانے والے علاقوں سے متعلق یہ خبریں زیر گردش ہیں کہ وہاں کے سیلابی نالے تجاوزات کی زد میں ہیں اور ان میں سے کچرا مکمل طور پر صاف نہیں کیا جا سکا تھا‘ جس کی وجہ سے پانی کی روانی میں خلل آیا اور معاملہ سیلابی ریلے پر منتج ہوا۔ کئی علاقوں میں بجلی کے پول اکھڑ جانے اور برقی رو کی فراہمی منقطع ہو جانے سے امدادی اور بحالی کے کاموں میں دقت پیش آئی۔ اگر ایسے معاملات پر پہلے ہی توجہ دے لی جائے تو اس پریشانی سے بچا جا سکتا تھا‘ جس کا سامنا گزشتہ روز اسلام آباد کے شہریوں کو کرنا پڑا‘ مگر تساہل کی جو روش ہمارے عمومی مزاج کا حصہ بن چکی ہے‘ ہر سال جانی و مالی نقصانات سے دوچار ہونے کے باوجود اسے بدلنے کی طرف توجہ نہیں دی جاتی۔ نتیجہ یہ کہ پچھلے سانحات کا غم ابھی ختم نہیں ہوتا کہ نئے سانحات مزید دکھ کا باعث بن جاتے ہیں۔ اندازہ اس بات سے لگائیے کہ گزشتہ سال مون سون کے سبب جولائی میں لگ بھگ 95 اور اگست کے مہینے میں 116 افراد جاں بحق ہوئے تھے، ایک ہزار سے زائد مکانات تباہ ہوئے، مالی نقصان کا تو کوئی تخمینہ ہی نہیں‘ اس کے باوجود امسال بھی ویسے ہی حالات مشاہدے میں آ رہے ہیں‘ جس کا صاف اور واضح مطلب یہ ہے کہ انتظامی اداروں اور ان کے حکام و اہلکاروں نے پچھلے سال ہونے والے جانی و مالی نقصان سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور معاملات کو قابو میں رکھنے کے لیے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا‘ یوں جاری مون سون میں بھی ہم پچھلے سال جیسے حالات کا سامنا کر رہے ہیں۔ اسی طرح گزشتہ برس کراچی جیسے میگا سٹی میں اربن فلڈ کی تباہ کاریاں دیکھنے کے باوجود متعلقہ محکموں کی روش میں کوئی تبدیلی دیکھنے میں نہیں آئی؛ چنانچہ یہ پیش گوئی خاصے وثوق کے ساتھ کی جا سکتی ہے کہ وہاں بھی بارشیں اگر معمول سے زیادہ برسیں تو حالات اسلام آباد‘ راولپنڈی سے مختلف نہیں ہوں گے۔ اگر مون سون سے پہلے‘ مئی جون کے مہینوں میں ہی برقی تاروں کی مرمت، نالوں کی صفائی، پانی کی روانی میں حائل رکاوٹوں کو دور اور غیر متوقع بارشوں کی صورت میں سیلابی پانی کو غیر آباد علاقوں کی طرف موڑنے کا موثر انتظام یقینی بنا لیا جائے تو ہر سال ہونے والے سینکڑوں جانی اور اربوں کے مالی نقصان سے بچا جا سکتا ہے۔

اسی طرح اگر محکمہ موسمیات کے نظام کو جدید خطوط پر استوار کیا جائے تو وہ کسی جگہ شدید بارشوں کی مزید ٹھیک ٹھیک پیش گوئی کرنے اور قبل از وقت متنبہ کرنے کے قابل ہو سکتا ہے۔ کراچی میں نکاسیٔ آب کے نالوں پر تعمیرات بارش کے پانی کی روانی میں رکاوٹ کا باعث بنتی ہیں۔ اب اسلام آباد میں بھی نالوں کے تجاوزات کی زد میں آنے کا انکشاف ہوا ہے تو تمام صوبائی اور شہری انتظامیہ کے لیے اس عمل کے سدِ باب کے اقدامات کرنا ناگزیر ہے‘ بصورتِ دیگر سیلابی ریلے شہری زندگی کو تہس نہس کرتے رہیں گے۔ ندی نالوں اور نکاسیٔ آب کے نظام کے بلاک ہونے کی سب سے بڑی وجہ پلاسٹک کے شاپنگ بیگز کا استعمال بھی ہے‘ شہری جنہیں استعمال کرنے کے بعد اِدھر اُدھر پھینک دیتے ہیں۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ کچھ علاقوں میں ان کا استعمال کم ہوا ہے‘ لیکن حالات ان پر مکمل بندش کا تقاضا کرتے ہیں تاکہ مون سون کا موسم ہمارے لیے زحمت نہیں بلکہ رحمت بن کر آئے۔ 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement