اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

مہنگائی کا سیلِ رواں!

حکومت نے پٹرول اور ڈیزل کے نرخ یکمشت پانچ روپے بڑھا دیے ہیں۔ بجلی کے نرخوں میں بھی تقریباً ماہانہ بنیادوں پر اضافہ ہو رہا ہے جبکہ گیس کے نرخ بھی بلند ترین سطح پر ہیں۔ مہنگی توانائی ملک کے ہر طبقے کیلئے کسی نہ کسی طرح پریشانی کا موجب ہے۔ صنعتکار کیلئے یہ اس لیے باعثِ تشویش ہے کہ مہنگی توانائی سے پیداواری لاگت بڑھتی ہے؛ تاہم وہ یہ اضافی اخراجات اشیا کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ آگے منتقل کرسکتا ہے مگر وہ عام آدمی جو صارف ہے پیداکار نہیں اور ملازم ہے آجر نہیں‘ اپنا خسارہ کہاں سے پورا کرے؟

تنخواہ دار‘ مزدور اور معمولی نوعیت کے کاروبار کا مالک اس صورتحال میں بری تک کچل رہا ہے۔ دانشمند حکومتیں اپنے اس طبقے کو تقویت دینے کی سکیمیں بناتی ہیں کیونکہ یہی طبقہ جو ہمارے جیسے سماج کا اکثریتی طبقہ ہوتا ہے معیشت کیلئے قوتِ محرکہ ثابت ہوتا ہے‘ مگر ہمارے ہاں انواع و اقسام کی روزافزوں مہنگائی نے درمیانے اور نچلے درمیانے طبقے کی قوتِ محرکہ کو ختم کردیا ہے۔ آبادی کے اس اکثریتی طبقے کی بددلی انتخابی عمل میں بھی واضح ہے مگر حکومت خواہ صوبائی ہو یا وفاقی اس جانب سنجیدگی سے سوچنے اور عملی اقدامات کے بجائے محض افسروں کے تبادلوں سے کام چلانے کی کوشش کر رہی ہے۔ افسروں کے تبادلوں سے اگر صورتحال میں بہتری آنی ہوتی تو اب تک ضرور آ چکی ہوتی۔ 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement