اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

ایک اور زلزلہ: ٹھوس فیصلے ناگزیر

جمعرات کے روز علی الصبح 3 بجے کوئٹہ سمیت بلوچستان کے مختلف علاقوں میں زلزلے کے شدید جھٹکے محسوس کیے گئے، جن کے سبب 24 سے زائد افراد جاں بحق جبکہ 300 سے زائد زخمی ہو گئے۔ زلزلہ پیما مرکز کے مطابق ریکٹر سکیل پر زلزلے کی شدت 5.9 ریکارڈ کی گئی جبکہ اس کی گہرائی 15 کلومیٹر تھی۔ زلزلے کا مرکز بلوچستان کے ضلع ہرنائی کے قریب تھا‘ جو اس زلزلے کا سب سے متاثرہ علاقہ بھی ہے۔ یہاں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی اور سینکڑوں مکانات ملبے کا ڈھیر بن گئے جبکہ ہرنائی سنجاوی شاہراہ پر لینڈ سلائیڈنگ بھی ہوئی جس کے باعث ٹریفک کی روانی میں خلل آیا۔ ضلع ہرنائی کے ڈپٹی کمشنر نے بتایا کہ بڑی تعداد میں سرکاری عمارات اور مکانات کو نقصان پہنچا جس کے نتیجے میں سینکڑوں افراد بے گھر ہو گئے ہیں۔ زلزلے کے فوری بعد ایف سی، لیویز اور پولیس نے امدادی کارروائیاں شروع کر دیں‘ کوئٹہ اور ہرنائی کے ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی جبکہ متاثرہ علاقوں میں امدادی سرگرمیوں کے لیے پاک فوج کے دستے بھی خوراک اور شیلٹر کے سامان کے ہمراہ پہنچ گئے۔ اس زمینی حقیقت سے کسی طور انکار ممکن نہیں کہ انسان کتنا بھی ترقی کر جائے قدرتی آفات کے سامنے بے بس ہے۔ یہ کبھی بھی کہیں بھی نازل ہو سکتی ہیں۔ زیادہ سے زیادہ یہ کیا جا سکتا ہے کہ کسی آفت کے اندیشوں کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے بہتر انتظامات کر لیے جائیں یا اگر کوئی آفت نازل ہو جائے تو متاثرین کے ریلیف پر بھرپور توجہ دی جائے‘ چنانچہ وزیر اعظم نے تمام متعلقہ وفاقی اداروں کو ریلیف کی فراہمی میں حکومتِ بلوچستان کو تمام ممکنہ معاونت اور زخمیوں کو بہترین طبی امداد کی فراہمی کی ہدایت کر دی ہے۔

زلزلہ زدگان کے ریلیف کے حوالے سے صورتحال اطمینان بخش ہے‘ البتہ اس زلزلے نے آفات‘ خصوصی طور پر زلزلے کے حوالے سے پیشگی انتظامات اور اقدامات پر توجہ دینے کی ضرورت کو ایک بار پھر اجاگر کر دیا ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ برس نومبر میں بھی کوئٹہ اور اس کے گردونواح میں 5.1 شدت کا زلزلہ آیا تھا‘ جبکہ اس سے قبل 2017ء میں بلوچستان کے ساحلی علاقوں گوادر، پسنی اور مکران میں 6.3 شدت کا زلزلہ آیا تھا۔ اسی طرح 2013ء میں ستمبر کے مہینے میں ضلع آواران میں 7.7 شدت کا زلزلہ آیا تھا جس سے ضلع کے 80 فیصد سے زائد کچے مکانات تباہ ہو گئے تھے اور بھاری جانی و مالی نقصان ہوا تھا۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق اس زلزلے میں 515 افراد جاں بحق اور 600 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔ اس علاقے میں اس قدر زلزلوں کی وجہ اس کا ’’فالٹ لائن‘‘ پر واقع ہونا ہے۔ گزشتہ روز کے زلزلے میں بھی تقریباً سبھی ہلاکتیں کچے مکانات کے منہدم ہونے سے ہوئیں۔ یہ حقیقت ڈھکی چھپی نہیں کہ پاکستان کا دو تہائی حصہ فالٹ لائن پر واقع ہے جہاں کسی بھی وقت‘ کسی بھی شدت کا زلزلہ آ سکتا ہے۔ اس قسم کے نقصانات سے بچاؤ کیلئے لازمی ہے کہ انفراسٹرکچر زلزلہ پروف ہو۔ اعدادوشمار سے واضح ہے کہ پاکستان میں اب تک جتنے بھی زلزلے آئے‘ ان میں ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں زیادہ نقصانات کا سامنا کرنا پڑا۔

جیولوجیکل سروے آف پاکستان کے مطابق‘ اکتوبر 2005ء کے بدترین زلزلے کے بعد باقاعدہ طور پر بلڈنگ کوڈ تیار کیے گئے تھے اور عمارتوں کے نقشوں کی منظوری کو ان کوڈز کی پاسداری سے مشروط کیا گیا تھا‘ مگر گزشتہ سولہ برسوں میں ان کوڈز پر کس قدر عمل ہوا‘ یہ سب کچھ ہمارے سامنے ہے۔ دوسری جانب جاپان‘ جسے زلزلوں کا گڑھ کہا جاتا ہے‘ کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے جہاں سالانہ اوسطاً دو سو سے زائد بڑے زلزلے آتے ہیں‘ مگر وہاں جانی نقصان نہ ہونے کے برابر ہے۔ 2018ء کے بعد جاپان میں آنے والے سینکڑوں چھوٹے بڑے زلزلوں میں ایک بھی فرد ہلاک نہیں ہوا‘ اور یہ سب کمال ہے زلزلہ پروف انفراسٹرکچر اور لوگوں کی زلزلوں کے حوالے سے بہترین تربیت کا۔ وہاں بچوں کو ابتدائی کلاسوں میں ہی سکھایا جاتا ہے کہ زلزلے میں کس طرح اپنی اور اپنے ارد گرد موجود لوگوں کی جان کو محفوظ رکھنا ہے۔ ہمیں بھی ایسی ہی منصوبہ بندی اور منظم اقدامات کی ضرورت ہے۔ اس وقت‘ جب بلوچستان کے تباہ حال اضلاع زلزلے کی تباہ کاریوں سے نمٹ رہے ہیں‘ اس سبق کو دہرانے کی ضرورت ہے کہ ہم زلزلوں سے اپنا دامن نہیں چھڑا سکتے، اگر ہم کچھ کر سکتے ہیں تو وہ اپنے انفراسٹرکچر کو زلزلوں سے ہم آہنگ بنانا ہے۔ بہرحال اس وقت سب سے پہلا کام متاثرین کی مدد ہونا چاہیے، بے گھر ہونے والوں کو فوری طبی امداد، کھانا اور شیلٹر فراہم کرنا از حد ضروری ہے کہ پہاڑی علاقوں میں سردیوں کا موسم شروع ہو چکا ہے، نیز ان کی دوبارہ آباد کاری اور بحالی کیلئے دیرپا منصوبہ بندی بھی کی جانی چاہیے۔ زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں ادویات، خوراک، خیموں اور دوسرے ضروری سامان کی بلاتعطل فراہمی جاری رہنی چاہیے۔ اس سلسلے میں عوام کو حکومت کی معاونت کیلئے آگے آنا چاہیے اور انسانی فلاح کیلئے کام کرنے والی این جی اوز کو بھی۔ دوسری طرف زلزلہ پروف عمارتوں کی تعمیر کیلئے بلڈنگ کوڈز کی پاسداری لازم بنانا ہوگی تاکہ قدرتی آفات میں انسانی جانوں کا اتلاف ممکن نہ رہے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement