اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

بھارتی مسلمانوں کی نسل کُشی!

نسل کشی کے خطرات سے آگاہ کرنے والے عالمی شہرت یافتہ ماہر ڈاکٹر گریگوری سٹینٹن کی حالیہ دنوں کی ایک بریفنگ بھارتی مسلمانوں کے وجود کو لاحق خطرات کے حوالے سے اقوام عالم کی آنکھیں کھول دینے کیلئے کافی ہے۔گریگ سٹینٹن کی تنظیم ’’جینو سائڈ واچ‘‘ 2002ء کے گجرات فسادات کے وقت سے بھارت میں مسلمانوں کی نسلی کشی سے متنبہ کرتی چلی آ رہی ہے؛ تاہم گزشتہ بدھ کو منعقد ہونے والی بریفنگ میں ڈاکٹر گریگوری نے بھارتی مسلمانوں کی نسل کشی کے خطرات کو جس تفصیل سے واضح کیا اس سے پتا چلتا ہے کہ صورتحال فی الواقع اس سے کہیں زیادہ خطرناک ہے جتنا اسے باور کیا جاتا ہے۔

’’نسل کشی کے دس مراحل‘‘ کا نظریہ پیش کرنے والے اس ماہر نے بھارتی مسلمانوں کی نسل کشی سے الرٹ کرتے ہوئے کہا کہ بھارت میں مسلمان نسل کشی کے آٹھویں مرحلے میں ہیں۔اس طرح ڈاکٹر گریگوری کے نظریے کے مطابق بھارت میں مسلمانوں کا صفایا صرف ایک قدم کے فاصلے پر ہے کیونکہ اس نظریے کی کلاسیفکیشن میں دسواں مرحلہ نسل کشی کے جرائم سے انکار کا ہے؛چنانچہ بھارت کی 21 کروڑ سے زائد مسلم آبادی کے نسلی بچاؤ کیلئے اقوام عالم کے متحرک ہونے کا یہی موقع ہے۔ ڈاکٹر گریگوری جن اندیشوں کا اظہار کر رہے ہیں‘ بھارت میں شدت پسندوں کا اقلیتوں‘ خاص طور پر مسلمانوں کے ساتھ سلوک اس کی شہادت دیتا ہے‘ جبکہ گزشتہ ماہ منعقد ہونے والے شدت پسندہندوؤں کے اجتماع میں مسلمانوں کے اجتماعی قتل عام کی باتیں جس طرح کی گئیں اس کے بعد یہ خطرات مزید زور پکڑ لیتے ہیں۔

اگرچہ بھارتی معاشرے کے ایک حصے نے ان بیانات سے بیزاری کا اظہار کیا ہے مگر یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ بھارتی سماج کا نسبتاً نارمل طبقہ بے دست و پا ہے اور خود اپنے وجود کی بقا کے خطرے سے دوچار ہے؛ چنانچہ جس ماہر نے روانڈا کی نسل کشی سے پانچ سال قبل ان واقعات کی پیشگوئی کر دی تھی‘ وہ بھارتی مسلمانوں کیلئے جن خطرات کا اظہار کر رہا ہے انہیں معمولی لینے کی غلطی نہیں کی جاسکتی۔نسل کشی ایک واقعہ نہیں‘ ایک عمل ہوتا ہے اور بھارت میں مسلمانوں کیلئے جو حالات پیدا کیے جا چکے ہیں وہ نسل کشی کے عمل کو کافی اگلے مراحل میں پہنچا ہوا دکھاتے ہیں جہاں مسلم آبادی کو اپنی شناخت کے بحران سے دوچار کرنے کی کارروائی سرکاری سرپرستی میں جاری ہے۔ ڈاکٹر گریگوری نے اس سلسلے میں بھارت کے ترمیم شدہ شہریت قانون اور مقبوضہ کشمیر کی ریاستی حیثیت کو بھارتی آئین میں ترامیم کے ذریعے تبدیل کرنے کو بطور خاص لیا ہے۔ وہ اس کا تقابل روانڈا کے حالات اور میانمار میں روہنگیا مسلمانوں سے کرتے ہوئے قرار دیتے ہیں کہ ہر دو مقامات پر نسل کشی کی بنیاد سماجی تفریق سے رکھی گئی۔

بھارت میں مسلمانوں کے خلاف اس کی کافی علامات موجود ہیں اور ایک انتہا پسند ہندو گروہ کے باقاعدہ رکن وزیر اعظم کے دورِ حکومت میں ان خطرات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اقوام عالم کو اس صورتحال کی جانب ذمہ داری سے متوجہ ہونے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان کی ذمہ داریاں دیگر ممالک سے زیادہ ہیں اور اس کی واضح وجوہ ہیں کہ بھارت اور پاکستان کے مسلمان نسلی طور پر ایک ہیں۔ آج بھی ہزاروں مسلم خاندانوں کی سرحدپار رشتہ داریاں ہیں اور اُدھر مسلمانوں کے خلاف نفرت‘ تشدد اور قتل و غارت کے واقعات پاکستانی شہریوں کیلئے صرف مذہبی بنیادوں پر نہیں انسانی بنیادوں پر بھی غیر معمولی تشویش کا باعث ہیں؛چنانچہ پاکستان کی حکومت فطری طور پر اس ذمہ داری کے ماتحت ہے کہ ان خوفناک حالات میں اپنے عوام کی تشویش سے دنیا کو آگاہ کرے۔

ان حالات میں جبکہ سرحد پار ہمارے بہن بھائی اپنے وجود کے خطرے سے دوچار ہیں‘ ہم پر انسانی ہمدردی کے ناتے بھی یہ ذمہ داری ہے کہ بھارتی مسلمانوں کی تشویش کو عالمی رائے عامہ تک پہنچانے میں جہاں تک ہو سکے اپنا کردار ادا کریں۔ ایسا کرنا انصاف کے تقاضوں کی رو سے بھی ہماری ذمہ داریوں میں شامل ہے کیونکہ بھارتی مسلمانوں کو نسلی‘ مذہبی اور تہذیبی شناخت کی بنا پر نشانہ بنائے جانے کا عمل کافی ایڈوانسڈ سٹیج پر پہنچ چکا ہے‘ اس صورتحال سے صرفِ نظر انسانی شرف کے بھی خلاف ہے۔بھارتی مسلمانوں کے لیے آواز اٹھاناانصاف کا تقاضا بھی ہے۔ پاکستان کی حکومت اس سلسلے میں جو کچھ کر رہی ہے‘ قابلِ قدر ہے مگر حالات کا تقاضا اس جدوجہد کو بڑھانے کاہے‘ خاص طور پر جن حالات کی نشاندہی نسل کشی کی سٹڈیز کا ایک مانا ہوا‘ عالمی سطح کی شہرت کا حامل ماہر کر رہا ہے فکر مندی کا باعث ہے۔

اگرچہ دسمبر کے دوسرے ہفتے کے دوران انتہا پسند ہندوؤں کے جلسے میں جن خیالات کا اظہار کیا گیا وہ بھی کم تشویش کا باعث نہ تھے مگر امریکہ میں سول سوسائٹی کی 17 تنظیموں کی جانب سے منعقد کی گئی عالمی کانفرنس میں ڈاکٹر گریگ سٹینٹن کی بریفنگ اس خطرے کی اصل صورت کو واضح کردیتی ہے۔ ہمیں یہ حقیقت مان لینی چاہیے کہ ہمارے ہاں عام آدمی کی سطح پر اور شاید حکومتی سطح پر بھی اس خطرے کی درست شدت کا اندازہ نہیں تھا۔ ڈاکٹر گریگوری کی بریفنگ سے ہماری آنکھیں کھل جانی چاہئیں‘ صرف ہماری نہیں عالمی رائے عامہ اور مغربی حکومتوں کی بھی۔ اس سلسلے میں مغربی دنیا کی ذمہ داریاں بھی مشرق سے کم نہیں‘ مگر بھارت کی بڑی آبادی اور مارکیٹ انہیں لبھاتی ہے اور اس مارکیٹ کی آڑ بھارت کی متعصب حکومت کو سرکاری سرپرستی میں اقلیتوں‘ خاص طور پر مسلمانوں کی نسل کشی کا موقع فراہم کر رہی ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement