اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

کورونا : نئی لہر کے خطرات

پیر کے روز ملک میں کورونا کی مثبت شرح 9.45ریکارڈ کی گئی‘ جولائی 2021 ء کے بعد ملک میںکورونا ٹیسٹوں میں مثبت کیسز کی یہ بلند ترین شرح تھی۔ان حالات میں اصولی طور پر اسی درجے کی احتیاطی تدابیر پر عمل کرنے کی ضرورت ہے جو ملک میں کورونا وبا کے عروج کے دنوں میں بروئے کار لائی گئیں‘ مگر اس جانب صورتحال کافی مایوس کن اور تشویشناک ہے۔ڈاکٹروں کی تنظیمیں بھی وباکے ابھرتے ہوئے خطرات سے آگاہ کررہی ہیں۔ یہ کہا گیا ہے کہ آنے والے دو سے تین ہفتے زیادہ خطرناک ہو سکتے ہیں‘ مگر اس تنبیہ کو سنجیدگی سے لینے کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی۔

ماہرین کی رائے ہے کہ موجودہ لہر سماجی میل جول کا نتیجہ ہے اور خصوصی احتیاطی تدابیر پر عمل اور ویکسی نیشن وبا کی اس لہر کو توڑنے میں کارگر ثابت ہو سکتی ہے مگر حکومت اس معاملے میں قطعی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کر رہی۔ یہ ٹھیک ہے کہ تقریباً 35فیصد آبادی کو کووِڈ ویکسین کی دو اور تقریباً 46 فیصد کو ایک خوراک لگ چکی ہے مگر یہ وبا کی موجودہ لہر کے خلاف کافی تحفظ نہیں۔جو چیز بہت ہی ضروری اور وباکے پھیلاؤ کو کم کرنے میں مددگار ہے‘ وہ ہے احتیاطی تدابیر پر عمل۔ویکسین اور احتیاط مل کر وبا کی اس لہرکو روک سکتی ہیں مگر احتیاطی تدابیر پر عمل درآمد میں سنجیدگی نظر نہیں آتی؛چنانچہ ویکسین کی مذکورہ شرح کے باوجود وبا کا حملہ تیز اور مستقبل قریب کیلئے خطرے کا واضح اشارہ ہے۔

حکومت کی جانب سے بروقت قدم نہیں اٹھایا جاتا تو اندیشہ ہے کہ وبا کا پھیلاؤ آنے والے دنوں میں بڑھ سکتا ہے اور کراچی جیسے حالات دیگر بڑے شہروں میں بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔ ایسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ حکومت کیلئے بعض شعبوں کی بندش کے سوا کوئی چارہ نہ رہے۔ اس سے بچنے کیلئے احتیاطی تدابیر اور بوسٹر ویکسین بہترین حل ہے۔ لاک ڈاؤن کے منفی اثرات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ تعلیم‘ کاروبار اور صنعت سمیت کون سا شعبہ ہے گزشتہ دو برس کے دوران جو لاک ڈاؤن کے منفی اثرات کا سامنا نہیں کر چکا۔ اب جبکہ نئے سال میں ایک نئی امید کے ساتھ شروعات کی گئی تو اومیکرون کا خطرہ دنیا کی راہ دیکھ رہا تھا۔ دنیا بھر کی معیشت پر اس کے منفی اثرات کی پیشگوئی کی جارہی ہے۔

معیشت ابھی کورونا کی اولین لہروں کے معاشی اثرات سے نکلنے کی تگ و دو میں تھی مگراومیکرون ویری اینٹ کے اثرات تقریباً پوری دنیا میں محسوس کیے جارہے ہیں۔ اگرچہ کورونا ویکسین کی دستیابی اس ویری اینٹ کے طبی خطرے کو بے قابو ہونے سے روکے گی مگر معاشی سرگرمیوں کی سست روی کو خارج ازامکان قرار نہیں دیا جارہا ؛پاکستان جیسی معیشتوں کیلئے ان حالات میں زیادہ محتاط چلنے کی ضرورت ہے۔ یہ تو ایک طے شدہ امر ہے کہ لاک ڈاؤن ہماری معیشت کیلئے قابل برداشت نہیں لہٰذا احتیاط اور ویکسی نیشن کے ذریعے بچاؤ ہی واحد حل ہے۔ان حالات میں حکومت کو جو قدم اٹھانے کی ضرورت ہے ان میں سب سے اہم یہ ہے کہ احتیاطی تدابیر پر اسی طرح ترجیحاً عمل کرایا جائے جیسے وبا کے شروع دنوں میں کیا جاتا تھا۔

ماسک پہننا‘ ہاتھ دھونا اور سماجی فاصلہ رکھنا کسی فرد کیلئے مشکل اور ناقابل عمل نہیں مگر وبا کی لہر کے پھیلاؤ کو روکنے میں یہ اقدامات بڑے مددگار ہوں گے۔ یہ تدابیر ویسے تو ہر جگہ بروئے کار لائی جانی چاہئیں مگر بازار‘ پر ہجوم مقامات‘ ریلوے سٹیشن اور بس اڈے چونکہ وائرس کا ہاٹ سپاٹ ہوتے ہیں اس لیے ان مقامات پر قطعاً بے احتیاطی نہیں ہونی چاہیے۔ اس کے باوجود کہ ویکسین اومیکرون ویری اینٹ کے خلاف بھرپور تحفظ فراہم نہیں کرتی مگر ویکسین ہی چونکہ سر دست بچاؤ کا اہم ذریعہ ہے اس لیے ویکسین کی اہمیت کو نظر انداز کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔ ویکسین کی شرح بڑھانے اور تیسری خوراک کیلئے بھی اقدامات تیز کرنے کی ضرورت ہے۔خاص طور پر وہ افراد جو ممکنہ طور پر وائرس کیریئر ثابت ہو سکتے ہیں جیسا کہ دفاتر اور تجارتی مقامات پر کام کرنے والے افراد اور بسوں اور ریل گاڑیوں کے مسافر ‘ انہیں بوسٹر ویکسین ضرور لگوانی چاہیے جبکہ وہ افراد جنہوں نے ابھی تک مکمل ویکسین نہیں لگوائی ان سے صرفِ نظر کی اب گنجائش نہیں کیونکہ یہ افراد نہ صرف اپنے بلکہ دوسروں کیلئے بھی وائرس کے خطرے کا سبب بن رہے ہیں۔

ویکسین کارڈ کو لازمی قرار دینے سے ممکن ہے کہ ایسے افراد کو ویکسین لگانے میں کامیابی حاصل ہو سکے۔ شاپنگ مالز‘ ہوٹلز‘ ریستوران اور بس اڈے‘ ریلوے سٹیشن ایسے مقامات ہیں جہاں ویکسین کا مصدقہ ثبوت فراہم کیے بغیر جانا ممنوع ہونا چاہیے۔وبا کی موجودہ صورتحال میں بہتری کا امکان عوامی آگاہی اور احتیاطی اقدامات اور بوسٹر ویکسین سے مشروط ہے۔عوامی سطح پرعدم آگاہی‘ حکومت کی جانب سے جاری کیے گئے بہت سے احکامات اور اقدامات پر عمل یقینی بنانے میں بڑی رکاوٹ ہے۔ جب تک یہ رکاوٹ موجود ہے کورونا کے خطرات سے مؤثر طور پر نمٹنے کا امکان کم ہے۔ عوامی عدم آگاہی بہت سے وسائل کے ضیاع کا بھی سبب بنتی ہے اور لوگ چور راستوں سے خود کو بچاتے ہیں۔

پچھلے کچھ عرصے میں ویکسین لگوائے بغیر ویکسین لگوانے والوں کی فہرست میں اندراج کی خبریں آ چکی ہیں۔ یہ بھی سنا جاتا ہے کہ کورونا کے جعلی سرٹیفکیٹ بنوا کر بھی لوگ اپنا کام چلا رہے ہیں۔ ایسے واقعات آگاہی نہ ہونے کا نتیجہ ہیں۔ اس لیے وبا کے خلاف مؤثر کارروائی کے اہداف حاصل کرنے سے پہلے اس معاملے میں عوامی آگاہی کی مہم سر کر نا ہو گی۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement