اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

آئی ایم ایف کی شرائط

پاکستان کے عالمی مالیاتی ادارے کے ساتھ توسیعی فنڈ پروگرام کے نویں سہ ماہی جائزے کیلئے جو باضابطہ مذاکرات دونوں طرف سے تخمینوں کے درمیان فرق کی وجہ سے کئی ماہ سے تاخیر کا شکار چلے آ رہے تھے‘ اُس کیلئے اب ورچوئل مذاکرات شروع ہو چکے ہیں۔ سہ ماہی اجلاس میں گزشتہ کارکردگی اور مستقبل کے اشاریے‘ جو پاکستان میں گزشتہ برس آنے والے سیلاب کی وجہ سے شدید متاثر ہوئے ہیں‘ سمیت مجموعی معاشی فریم ورک کا جائزہ لیا جانا ہے۔ کئی ماہ کی تاخیر کے بعد وفاقی حکومت نے اب آئی ایم ایف قرض پروگرام کو ٹریک پر لانے کیلئے کام شروع کر دیا ہے۔ اس ضمن میں حکومتی معاشی ٹیم نے مجوزہ منی بجٹ کا مسودہ بھی آئی ایم ایف حکام کے سامنے پیش کر دیا ہے جس میںمختلف اشیا پر 70 ارب روپے کی ٹیکس چھوٹ ختم کرنے‘ ٹیکس جی ڈی پی تناسب کم از کم 11 فیصد تک بڑھانے‘ گیس مہنگی کرنے‘ پٹرولیم لیوی بڑھانے اور بجلی پر دی جانے والی سبسڈی ختم کرنے جیسی تجاویز شامل ہیں۔ مجوزہ منی بجٹ کے تحت درآمدات پر فلڈ لیوی بھی عائد کی جائے گی۔ عوام پہلے ہی حکومت کی طرف سے لیے گئے مشکل معاشی فیصلوں کا خمیازہ روز افزوں مہنگائی اور بیروز گاری کی صورت میں بھگت رہے ہیں‘ اُن کی قوتِ خرید نچلی ترین سطح پر پہنچ چکی ہے‘ ان حالات میں منی بجٹ ملک میں مہنگائی کا ایک نیا طوفان لائے گا۔ اس وقت اصل مسئلہ مگر یہ ہے کہ حکومت نے آئندہ تین ماہ میں تقریباً 8.3 ارب ڈالر کے بیرونی قرضے ادا کرنے ہیں اور قرض کی یہ ادائیگی آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کے بغیر ممکن نہیں کیونکہ امریکہ‘ چین اور سعودی عرب جیسے دوست ممالک بھی مزید قرضوں کو آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی سے مشروط کر چکے ہیں۔ آئی ایم ایف پروگرام کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے سے ملنے والے قرض سے معیشت کو درپیش چیلنجز سے نبرد آزما ہوا جائے۔ 1958ء سے 2019ء تک‘ پاکستان 22مرتبہ آئی ایم ایف سے رجوع کر چکاہے لیکن اس دوران ملنے والے بیل آؤٹ پیکیجز سے ملک کی معاشی سمت درست نہیں کی جا سکی۔ پاکستان کے مقابلے میں بنگلہ دیش نے دس مرتبہ آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پیکیج حاصل کیا لیکن اُس کے زرِ مبادلہ کے ذخائر آج تقریباً 33 ارب ڈالر ہیں جبکہ ہمارے چار ارب ڈالر سے بھی کم تر سطح پر آ چکے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بنگلہ دیش نے آئی ایم ایف سے لیے گئے قرض کو اپنی معاشی سمت درست کرنے پر صرف کیا جبکہ ہماری حکومتیں کوئی مربوط معاشی پالیسی نہ بنا سکیں۔ آئی ایم ایف پروگرام ملک کو درپیش معاشی مسائل کا مستقل حل نہیں‘ یہ بیل آؤٹ پیکیجز ہمیں صرف ایسے مواقع فراہم کرنے میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں جن سے فائدہ اٹھا کر ہم اپنی معاشی حالت سدھار سکیں‘ لیکن اس کی ایک قیمت بھی ہوتی ہے اور یہ کوئی ڈھکی چھپی نہیں ہوتی‘ مگر یہ ہماری حکومتوں پر ہے کہ وہ بیل آؤٹ پیکیج کو استحکام حاصل کرنے کے امکان کے طور پر استعمال کرتی ہیں یا نہیں۔پاکستان قدرتی وسائل اور افرادی قوت سے مالا مال ہے‘ اگر معاشی استحکام کی پائیدار حکمت عملی کے ساتھ ان وسائل سے استفادہ کیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ملکِ عزیز ان مسائل پر قابو نہ پاسکے۔ بنیادی طور پر ہمیں ایک ’’معاشی میگنا کارٹا‘‘ کی ضرورت ہے جو قومی معیشت کیلئے رہنما اصول متعین کرے اور ان اصولوں کی ہر حال میں پاسداری کی جائے۔ جب تک ایسا نہیں ہوتا پاکستان کیلئے قرضوں کے چنگل سے نکل کر معاشی خود انحصاری کی جانب پیشرفت ممکن نہیں۔ موجودہ حکومت آئی ایم ایف کی سخت شرائط کو مان کر قرض پروگرام بحال کرنا چاہتی ہے تو ضرورکرے مگر کوئی ایسی حکمت عملی اور منصوبہ بھی پیش کرنا ہو گا جو عوام پر اس پروگرام کے سخت اثرات کو کم سکے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو یہ قرض بھی حسبِ سابق ایک بلبلہ ثابت ہو گا‘ جو کچھ دیر باقی رہنے کے بعد ملک کے معاشی حالات کو پہلے سے زیادہ تشویشناک حالت میں چھوڑ جائے گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں