اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

خسارے کے اجزائے ترکیبی

گزشتہ روز آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف کاکہنا تھاکہ ملک کو بہت معاشی چیلنجز درپیش ہیں‘آئی ایم ایف ایک ایک شعبے کا کھاتہ اور ایک ایک دھیلے کی سبسڈی کا حساب دیکھ رہا ہے۔اگلے روز پشاور میں اپیکس کمیٹی کے دوران بھی وزیر اعظم نے آئی ایم ایف کی مشکل شرائط کا تذکر کیا۔وزیر اعظم جس صورتحال کو بیان کررہے تھے‘ اس سے انکار ممکن نہیں‘اور یہ بھی حقیقت ہے کہ حالات کی یہ سنگینی اچانک پیدا نہیں ہوئی۔یہ ہماری گزشتہ کئی دہائیوں کی طرزِ حکمرانی اور معاشی تدبیر کا بدیہی نتیجہ ہے۔ فرد ہو یا ریاست‘ کامیاب معیشت کا ایک ہی اصول ہے کہ چادر دیکھ کر پاؤں پھیلاؤ‘ مگر ہمارا چلن مختلف تھا۔ سال بسال بڑھتا تجارتی خسارہ ہمارے اس چلن کی بہتر عکاسی کر سکتا ہے۔ گزشتہ ایک دہائی کے برآمدی و درآمدی اشاریے دیکھ لیں تو تجارتی خسارے کی حیران کن صورت واضح ہو جاتی ہے۔ مثال کے طور پر مالی سال 2012ء میں 23.6 ارب ڈالر کی برآمدات کے مقابلے میں 44.9 ارب ڈالر کی درآمدات کی گئیں۔ اگلے قریب تین برس تک تھوڑے بہت فرق کے ساتھ برآمدات اور درآمدات کی تقریباً یہی شرح برقرار رہی‘ مگر مالی سال 2016 ء میں درآمدات کا حجم تو 44.6 ارب ڈالر رہا مگر  برآمدات 20.7 ارب ڈالر کی سطح پر آ گئیں‘ جبکہ مالی سال 2016ء سے 2020ء کے دوران برآمدات کا حجم تو بیس ارب ڈالر کے لگ بھگ رہا مگر اس دوران درآمدات میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا جو مالی سال 2017 ء میں 52.9 ارب ڈالر‘ 2018ء میں 60.7 ارب ڈالر اور 2019ء میں 54.7 ارب ڈالر تک پہنچ گیا۔ یعنی ان میں سے ہر ایک سال کی درآمدات 1986-93 ء کے دوران مجموعی درآمدات کے برابر تھیں۔ درآمدات اور برآمدات کی یہ صورتحال گزشتہ برس تک بدستور قائم رہی‘ گزشتہ برس 31.7 ارب ڈالر کی برآمدات کے مقابلے میں 80 ارب ڈالر کی درآمدات کی گئیں۔ مگرہر سال قریب دوگنا درآمدات کے لیے زرمبادلہ کیسے فراہم کیا جاتا رہا؟ ہمارے ملک کی بیرونی اور اندرونی ادائیگیوں کے بوجھ میں سال بسال اضافہ اس سوال کا جواب دے سکتا ہے؛ چنانچہ آج صورت یہ ہے کہ زرمبادلہ کے ذخائر پیندے سے لگ چکے ہیں اور اس تنگی کے ہاتھوں بہت سی غیر ضروری اشیا کے ساتھ ضروری اشیا کی درآمدات پر بھی پابندی عائد ہے۔ تجارتی توازن اور بجلی کے پیداواری اور تقسیم کار شعبے کی مالی صورتحال کو منظم کیے بغیر ملک کی معاشی بدحالی سے نمٹنا ممکن نظر نہیں آتا۔ بجلی کے شعبے کے گردشی قرضے جو2013ء میں 450کے قریب تھے‘ 2018ء میں 1148ارب روپے تک پہنچ گئے‘ جبکہ گزشتہ سال مارچ میں یہ واجبات 2467ارب روپے تک جا پہنچے اور اس وقت اڑھائی ہزار ارب روپے کی حد عبور کر چکے ہیں۔یہ واجبات ایک ایسی ہڈی بن چکے ہیں جسے نہ نگلا جا رہا ہے نہ اگلا جا رہا ہے۔یہ در اصل حکومتی اور ادارہ جاتی سطح پر نااہلی کی ایک داستان ہے کہ پچھلے قریب دس برس میں کوئی حکومت بھی اس گھناؤنے چکر سے نمٹنے کا کوئی منصوبہ پیش نہیں کر سکی ؛چنانچہ اس مد میں بتدریج اور غیر معمولی اضافہ ہوتا چلا گیا اور یہ مالی بوجھ عملاً لا ینحل صورت اختیار کر چکا ہے۔اگر عالمی مالیاتی ادارے کی ہدایت کے مطابق یہ بوجھ صارفین پر منتقل کیا جاتا ہے تو بجلی کی قیمت میں جو بے تحاشا اضافہ ہو گا اس کے معاشی‘ سماجی اور صنعتی اثرات کو بھی مد نظر رکھنا ہو گا۔ ملکی صنعتی شعبہ پہلے ہی جاں بلب ہے‘ بجلی کی مزیدمہنگائی کے اثرات پیداواری سرگرمیوں پر مزید منفی ہوں گے۔منجملہ آج ملک کو جس تباہ کن صورتحال کا سامنا ہے یہ کسی ایک حکومت کا کیا دھرا نہیں‘ حقیقت یہ ہے کہ پچھلے کم از کم دس برس میں آنے والے ہر حکمران نے اس خرابی میں اپنا حصہ ڈالا ہے؛ چنانچہ ضروری ہے کہ خرابی کے شراکت دار اب ان مسائل کے حل کے لیے بھی مل کر کردار ادا کریں۔ فی الحقیقت مسائل کے اس طومار کا دوسرا کوئی حل نظر نہیں آتا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement