اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

پسماندہ طبقے کے تحفظ کا مقدمہ

حقوق انسانی کے عالمی ادارے’’ہیومن رائٹس واچ‘‘ نے اپنے ایک بیان کے ذریعے آئی ایم ایف پر زور دیا ہے کہ سماجی تحفظ کے نظام کو وسعت دے کر معاشی طور پر پسماندہ افرادکے تحفظ کیلئے اسے حکومت پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیے اور ایسے اصلاحاتی اقدامات کو کم سے کم کرنا چاہیے جن سے انتہائی کمزور مالی حیثیت کے لوگوں کو مزید نقصان پہنچنے کا احتمال ہو۔ ہیومن رائٹس واچ کے بیان کے مطابق غربت‘ مہنگائی اور بیروزگاری میں اضافے کے ساتھ آج پاکستان اپنی تاریخ کے بدترین معاشی بحران کا سامنا کر رہا ہے‘ جس سے لاکھوں لوگوں کے صحت‘ خوراک اور مناسب معیارِ زندگی کے حقوق خطرے میں پڑ رہے ہیں۔آئی ایم ایف اور حکومتِ پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بحران سے اس انداز سے نمٹیں جس سے کم آمدنی والے لوگوں کو ترجیح دی جائے اور انہیں تحفظ حاصل ہو۔حقوقِ انسانی کے عالمی ادارے کا یہ بیان ایسے وقت میں آیا ہے جب حکومتِ پاکستان اور آئی ایم ایف قرض معاہدے کی بحالی کے فیصلہ کن مرحلے میں ہیں اور یہ ایسا مرحلہ ہے جس میں پاکستان کے کم آ مدنی والے شہریوں کے حقوق اور مفادات داؤ پر ہیں۔ قرض بحالی کیلئے آئی ایم ایف کی جانب سے جو شرائط پیش کی گئی ہیں ان میں جنرل سیلز ٹیکس اور پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں جبکہ بجلی کے لائف لائن کنزیومرز کو ٹیرف میں حاصل رعایت کا خاتمہ بھی اس میں شامل ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ وطن عزیز کی معاشی بقا آئی ایم ایف کے قرض پروگرام کی بحالی پر منحصر ہے‘ مگر اس کیلئے عائد کی جانے والی شرائط میں انسانی ہمدردی کا احساس نظر آنا چاہیے۔ اسراف کی حمایت یقینا نہیں کی جاسکتی مگر مستحق افراد کو مالی سہارا دینا حکومتی ذمہ داری اورسماجی استحکام کے فائدے میں ہے ؛ چنانچہ حکومت اور عالمی مالیاتی ادارے کو یہ پہلو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کا یہ کہنا بجا ہے کہ آئی ایم ایف سیلاب میں ڈوبے لوگوں کو مہنگائی میں نہ ڈبوئے۔اس سلسلے میں حکومت کو چاہیے کہ وہ کسی واضح منصوبے کے ساتھ سامنے آئے۔ اب تک کی حکومتی کارکردگی اور رویے سے ایسا ظاہر نہیں ہوتا کہ کم آمدنی والے طبقے کا تحفظ اس کی ترجیحات میں شامل ہے۔ اس کا ثبوت یوٹیلیٹی سٹور یا ایسی دیگر سہولتوں‘ جہاں سے عوام کو نسبتاً سستے داموں اشیائے ضروریہ مل جاتی تھیں‘ کی جانب حکومت کی عدم توجہی ہے۔ یوٹیلیٹی سٹورز کا ملک گیر نیٹ ورک‘ اگر شفافیت سے چلایا جائے تو حکومت کی جانب سے کسی بڑی امداد کے بغیر بھی عوام کو بازار کی نسبت رعایتی داموں اشیائے ضروریہ فراہم کر سکتا ہے‘ مگر اس ادارے کے انتظامی معاملات کو بہتر کرنے کے بجائے حکومتیں صرف اسے سبسڈی کی ایک مد کے طور پر لیتی رہی ہیں جبکہ ادارے کی اصلاح کو ہمیشہ نظر انداز کیا گیا۔ یہ سہولت کم آمدنی والے طبقے کیلئے مخصوص کرنے پر بھی کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ اسی طرح بجلی کے صارفین میں چھوٹے بڑے کی تمیز کیلئے کوئی مؤثر طریقہ کار اختیار نہیں کیا گیا۔ راشن ہو یا بجلی‘ حکومت کی جانب سے دی جانب والی رعایت کے خاتمے کی ضرب کم آمدنی والے طبقے کیلئے زوردار ثابت ہو گی؛ چنانچہ اس طبقے کے تحفظ کیلئے حکومت کو چاہیے کہ فوری طور پر ان سہولتوں کے خاتمے کے مطالبے کی مخالفت کرے۔ اس وقت جب آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کی بحالی کے مذاکرات حتمی مرحلے میں ہیں‘ حکومت کو کم آمدنی والے طبقے کے مفاد کا تحفظ یقینی بنانے کے اقدامات کرنے چاہئیں۔ حقوق انسانی کے عالمی ادارے کی جانب سے آئی ایم ایف پر زور دینے سے ظاہر ہوتاہے کہ عالمی سطح پر یہ رائے پائی جاتی ہے کہ پاکستان میں سماجی تحفظ کے نظام کے ذریعے پسماندہ طبقے کو تحفظ فراہم کیا جائے۔حکومت کو چاہیے کہ اس عالمی رائے اور ملک کے حالات کا مقدمہ پیش کر کے معاشی طور پر پسماندہ افراد کے حقوق کا تحفظ کرے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement