اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

قومی مکالمہ ، بحران سے نکلنے کا راستہ

بدھ کی شام پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بعض ارکان کی جانب سے سیاسی مذاکرات اور اتفاقِ رائے سے معاملات کا حل تلاش کرنے‘آئین پر مکمل عمل درآمد یقینی بنانے‘ آل پارٹیز کانفرنس بلانے اور باہمی مشاورت سے انتخابات کی تاریخ دینے کی تجاویز خوش آئند ہیں۔یہ آواز سندھ سے تعلق رکھنے والے گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس اور بلوچستان سے تعلق رکھنے والے نیشنل پارٹی کے ارکانِ پارلیمنٹ نے اٹھائی اور تحریک انصاف کی قیادت کے ساتھ مذاکرات کو در پیش بحران سے نکلنے کا واحد راستہ قرار دیا۔ سیاسی جماعتوں میںمڈ بھیڑ قومی یکجہتی اور سلامتی کیلئے نیک شگون نہیں۔ ان اختلافات نے سال بھر میں ملکی جمہوریت‘ سیاست اور معیشت کے ساتھ جو کیا ہے یہ کسی پاکستانی سے اوجھل نہیں۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کیلئے اس قسم کے بحران اُن ممالک کی نسبت زیادہ تشویشناک ہیں جہاں کا ادارہ جاتی نظام مستحکم ہے‘ وہاں سیاسی اختلاف شدت اختیار کریں‘ حکومتیں تبدیل ہو تی رہیں مگر ترقی کی سمت اور رفتار پرفرق نہیں پڑتا۔ ہم ابھی ترقی پذیر مرحلے میں ہیں جہاں مسلسل محنت اور بلا تعطل جدوجہد کی ضرورت ہے۔ اس تسلسل میں کوئی تبدیلی آ جائے تو ہماری ترقی کا مومینٹم ٹوٹ جاتا ہے‘ جیسا کہ اس ایک سال کے دوران ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ہوا ہے۔ اس تجربے سے اگر کچھ سیکھا جاسکتا ہے تو وہ یہ کہ ہمیں ترقی اور خوشحالی کیلئے سیاسی عدم استحکام سے جان چھڑانا ہو گی۔ پارلیمان کے اس مشترکہ اجلاس ہی میں بعض وزرا نے یہ کہا کہ پارلیمنٹ مدر آف انسٹیٹیو شنز ہے۔ بے شک ہے مگر اس مؤقر ادارے کا بھرم جمہوری اقدار میں ہے۔ جہاں جمہوری اصولوں کی بے توقیری ہو وہاں پارلیمنٹ محض رسمی حیثیت میں ’مدر آف انسٹیٹیوشنز‘ہی رہ جاتی ہے۔ موجودہ حالات‘ جو اگرچہ سیاسی اعتبار سے غیر معمولی تلخ اور انتہائی درجے کی بے یقینی سے بھرپور ہیں مگر یہ حالات ہمارے لیے اس دوراہے کی مانند ہیں جہاں سے ہمارے قومی قافلے کی سمت جمہوری مستقبل کی جانب بھی ہو سکتی ہے اور اس سے متضاد طرزِ حکومت کی جانب بھی۔ اس کا انتخاب ہم پر ہے کہ ہم نے کس جانب بڑھنا ہے۔ اگر معاصر دنیا کو دیکھا جائے تو جمہوریت کے مقابلے میں دوسرا کوئی آپشن نہیں۔صرف یہی مروجہ طرزِ حکومت ہماری قومی گاڑی کو استحکا م کی پٹری پر چڑھنے میں مدد دے سکتا ہے اور اس کیلئے سیاسی رہنماؤں میں اتفاقِ رائے ناگزیر ہے۔ سیاسی انتشار‘ افراتفری اور اَنا کی لڑائی میں پہلا ہدف جمہوری اصول بنتے ہیں؛ چنانچہ ضروری ہے کہ اس قومی مسئلے کو قومی ہمدردی کے جذبے کے ساتھ‘ ذاتی سیاسی مفاد سے بلند ہو کر دیکھا جائے۔ یہ سوچ ہمیں قدرتی طور پر گرینڈ ڈائیلاگ کی جانب لے جاتی ہے جس کا ذکر مشترکہ پارلیمانی اجلاس میں مذکورہ رہنماؤں کے علاوہ گزشتہ روز وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے بھی کیا۔ اس نیک کام میں ہم پہلے ہی بہت دیر کر چکے ہیں ورنہ آج ملک میں جو بے یقینی اور عدم تحفظ ااور مستقبل کے بارے مایوسی کے احساسات پائے جاتے ہیں‘ وہ نہ ہوتے۔ اگر اب بھی کوئی وقت ضائع کیے بغیر اس کیلئے تیار ہو جائیں تو امید ہے کہ سال بھر کی اس سیاسی کشیدگی کا مداوا ہوسکتا ہے جس کی انتہا اب سیدھے تصادم کی صورت اختیار کر چکی ہے۔اس وقت جب دنیا ہمیں دیکھ کر حیران ہے کہ ان حالات میں جب پاکستان کے رہنماؤں کی توجہ اس ملک کو معاشی دیوالیہ پن سے اور لوگوں کو معاشی تحفظ فراہم کرنے پر ہونی چاہیے تھی‘ ہم سیاسی تصادم سے اپنی کشتی کے پیندے میں چھید کرنے پر کیوں لگے ہیں؟ اسی عاقب نااندیش رویے کا نتیجہ ہے کہ ہمارے آزمودہ اور دیرینہ دوست بھی ان حالات میں ہم سے کنی کترانے پر مجبورہو رہے ہیں۔ ہمیں قومی سطح پر اپنے کردار پر بہت گہری نظر ڈالنے اور جامع اصلاح کی ضرورت ہے‘ اگر ہم پاکستان کو اس کا وہ مقام دلانا چاہتے ہیں جو اس کا حق ہے۔ 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement