عدالتی التوا، اسباب اور حل
چیف جسٹس آف پاکستان جناب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے گزشتہ روز ایک مقدمے کی سماعت کے دوران قرار دیا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان میں اب تاریخ لینے کا رجحان نہیں چلے گا۔ چیف جسٹس پاکستان عدالتِ عظمیٰ میں زیر التوا مقدمات کے غیر معمولی حجم کا پہلے ہی فکر مندی سے حوالہ دے چکے ہیں۔ ’پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ‘کیس میں معزز چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ میں 57000کیسز زیر التوا ہیں اور بطور چیف جسٹس اُن کی کوشش ہو گی کہ اِن مقدمات کو جلد از جلد نمٹایا جائے۔ گزشتہ روز معزز چیف جسٹس نے یہ بات مزید واضح کر دی کہ سپریم کورٹ میں کیسز کو التوا میں ڈالنے کا تصور ختم کیا جائے گا۔ سپریم کورٹ آف پاکستان میں اس وقت زیر التوا مقدمات کا حجم بلند ترین سطح پر ہے۔پچھلے دس برس کے دوران زیر التوا مقدمات کی تعداد میں تین گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ 2013 ء میں 20480مقدمات زیر التوا تھے جو اس وقت 57000تک پہنچ چکے ہیں۔جبکہ 2013 ء سے ایک دہائی پہلے کے مقابلے میں ایک دہائی بعد مقدمات میں التوا کا حجم کئی گنا زیادہ رہا ہے۔ مثال کے طور پر 2001ء میں 13000 کے قریب مقدمات زیرالتوا تھے۔ بارہ برس بعد ان میں قریب سات ہزار کا اضافہ ہوا؛ تاہم 2013ء کے بعد کی ایک دہائی میںزیر التوا مقدمات میں 37000 کا اضافہ ہوگیا۔ یہ صورتحال ہر لحاظ سے تشویش کا باعث ہے اور اس کیلئے ہمہ گیر اقدامات کی ضرورت ہے۔ ماضی میں جسٹس آصف سعید کھوسہ نے زیرِ التوا مقدمات کو نمٹانے میں نمایاں کوششیں کیں اور ان کے 11 ماہ کے دوران عدالتِ عظمیٰ میںپچیس برس کے دوران فوجداری مقدمات میں دائر کی گئی زیر التوا اپیلوں کو نمٹا دیا گیا۔ سا ل بہ سال زیر التوا مقدمات کی بڑھتی ہوئی تعداد عدالتِ عظمیٰ کی جانب سے خصوصی اقدامات کی متقاضی ہے جن کی جھلک نئے چیف جسٹس کے عزائم میں دیکھی جاسکتی ہے۔ انصاف کا ایک بنیادی اصول ہے کہ یہ بروقت ہونا چاہیے۔ ’’انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار‘‘ ایک کہاوت ہے جس کا مطلب ہے کہ اگر انصاف بروقت نہیں دیا جاتا‘ تو یہ ایسے ہی ہے جیسے انصاف ملا ہی نہ ہو۔اس صورتحال کو ان قیدیوں کے مقدمات میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے جو کسی جرم میں ملوث نہیں ہوتے مگر نظام کی بوالعجیبیوں کی وجہ سے مقدمات میں پھنس جاتے ہیں اور انہیں یہ ثابت کرنے میں کہ وہ واقعی بے گنا ہ ہیں اپنی زندگی کے کئی قیمتی سال پسِ دیوارِ زنداں گزارنا پڑتے ہیں۔ یہی حال ان بہت سے دیوانی مقدمات کا ہے جن کی کئی نسلیں پیروی کرتی ہیں تب جا کر فیصلے کی صورت نظر آتی ہے۔ یہ صورتحال معیارِ عدل اور انصاف کے اصولوں کے مذاق کے مترادف ہے اور اس کا ازالہ اسی صورت ممکن ہے جب اعلیٰ عدالتیں التوا کے خلاف وہی اصولی مؤقف اختیار کریں جیسا کہ چیف جسٹس آف پاکستان نے اختیار کیا ہے کہ ایک تاریخ پر فریقین کو نوٹس جاری ہو اور اگلی سماعت میں دلائل پر فیصلہ ہو جائے۔ ہائی کورٹس اور ماتحت عدلیہ کی سطح پر بھی ایسے اقدامات کی اشد ضرورت ہے جو مقدمات کی تاخیر کے اسباب کو کم کر سکیں۔اس سلسلے میں عدالتوں اور ججز کی تعداد بڑھانے سمیت جو بھی ضروری اقدامات ہیں ان میں تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔ چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کو اپنے دور میں ایسی اصلاحات متعارف کروانے کیلئے بھر پور اقدامات کرنے چاہئیں جو مقدمات نمٹانے کی رفتار میں اضافہ کرسکیں‘ اور ایسے انتظامات پائیدار بنیادوں پر ہونے چاہئیں۔ یہی صورت اعلیٰ عدلیہ میں مقدمات کے مسلسل بڑھتے حجم کو بتدریج کم کرنے کا سبب بن سکتی ہے۔ باالفاظ دیگر انصاف کی فراہمی کے عمل کی رفتار میں اضافہ کر سکتے ہیں تا کہ اپنے حق کی خاطر یا اپنی بے گناہی کو ثابت کرنے کیلئے کسی کو طویل مدت انتظار نہ کرنا پڑے۔