برآمدات میں اضافہ ناگزیر ہے
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ اگر پاکستان کی معاشی ترقی مقصود ہے تو برآمدات میں اضافے کے سوا ہمارے پاس کوئی آپشن نہیں۔ برآمدات میں اضافہ ایک ناگزیر قومی ضرورت ہے جو نہ صرف ملکی معیشت بلکہ سماجی پھیلائو کو منظم رکھنے کیلئے بھی ضروری ہے کہ صنعتیں چلیں گی تو روزگار کے مواقع بڑھیں گے اور مجموعی قومی پیداوار میں اضافہ ہو گا۔ قبل ازیں ’اڑان پاکستان‘ کے اہداف میں بھی برآمدات کو آئندہ پانچ برس میں 30 ارب سے 60 ارب تک لے جانے کا ہدف مقرر کیا گیا۔ اگر گزشتہ ایک دہائی کا جائزہ لیا جائے تو مالی سال 2013ء میں 24ارب 46کروڑڈالر کی برآمدات ہوئیں۔مالی سال 2017 ء میں برآمدات کا حجم 20 ارب 42کروڑ ڈالررہا۔ 2019ء میں ملکی برآمدات کا حجم 22 ارب95 کروڑ ڈالرز رہا اور مالی سال 2024ء میں 30 ارب67 کروڑ ڈالر کی برآمدات ہوئیں۔ یعنی گزشتہ دس برس میں ہم ملکی برآمدات محض میں 6 ارب 21 کروڑ ڈالرز اضافہ کر سکے ہیں۔اس تسلسل کو دیکھا جائے تو آنے والے پانچ برس میں برآمدات کے ہدف میں 100 فیصد اضافے کا دعویٰ بظاہر حیران کن معلوم ہوتا ہے۔ برآمدات میں کئی گنا اضافہ ناقابلِ عمل نہیں مگر اس کیلئے ایک جامع اور مستقل معاشی پالیسی کی ضرورت ہے‘ جس میں دیرپا اہداف کے بجائے سال بہ سال کے اہداف مقرر کر کے انکے حصول پر توجہ دی جانی چاہیے۔ سب سے پہلے ان برآمدی شعبوں کا تعین کرنا ہو گا جن میں اس قدر نمو ہو کہ وہ برآمدات میں واضح اضافہ کر سکیں۔ زراعت‘ ٹیکسٹائل اور آئی ٹی ایسے شعبے ہیں جن میں اتنا پوٹینشل ہے کہ مشکل حالات میں بھی اپنی نمو کی صلاحیت برقرار رکھ سکتے ہیں۔ گزشتہ مالی سال ملکی معیشت بیشتر اہداف حاصل نہیں کر پائی تھی مگر ان مشکل حالات میں بھی زرعی شعبے کی نمو دو فیصد کے مقررہ ہدف کے مقابلے میں 6.25 فیصد تک پہنچ گئی تھی۔ رواں مالی سال کے پہلے پانچ ماہ (جولائی تا نومبر) زرعی اجناس میں چاول کی برآمدات میں 35.4فیصد‘ پھلوں اور سبزیوں میں 12 فیصد اور چینی کی برآمدات میں 834 فیصد کا اضافہ ہوا۔ اگر اس شعبے کی بھرپور سرپرستی کی جائے تو یہ برآمدات میں خاصا اضافہ کر سکتا ہے۔ اسی طرح ٹیکسٹائل کے شعبے میں بھی نمو کی بہت صلاحیت ہے۔ رواں مالی سال کے پہلے پانچ ماہ میں ٹیکسٹائل برآمدات میں 11 فیصد اضافہ ہوا اور گزشتہ سال کے 6 ارب 84کروڑ ڈالر کے مقابلے میں 7 ارب 60 کروڑ ڈالر سے زائد کی ٹیکسٹائل برآمدات کی گئیں۔ مالی سال 2022ء میں ٹیکسٹائل برآمدات 28 فیصد اضافے سے 22 ارب ڈالر تک پہنچ گئی تھیں مگر پھر مہنگی توانائی نے اس شعبے پر نہایت منفی اثر ڈالا اور نوبت بہ ایں جا رسید کہ مارچ 2023ء میں ٹیکسٹائل انڈسٹری کی تنظیم کے ارکان نے ایک پریس کانفرنس میں انکشاف کیا کہ ٹیکسٹائل انڈسٹری سے منسلک تقریباً 70 لاکھ افراد بیروزگار ہو چکے ہیں۔ اگر اس شعبے کی مشکلات کو دور کیا جائے‘ صنعتوں کو سستی توانائی مہیا کی جائے تو اس شعبے میں بھی نمو کا خاصا وسیع امکان موجود ہے۔ سال 2024ء انٹرنیٹ سے منسلک شعبوں کیلئے کٹھن ترین رہا مگر اس کے باوجود رواں مالی سال کے پہلے پانچ ماہ کے دوران آئی ٹی کی برآمدات میں 32 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا اور ملک کی آئی ٹی رینکنگ 79سے بڑھ کر 40 ہوگئی۔ اگر انٹرنیٹ کی بلاتعطل فراہمی اور تیز سپیڈ یقینی اور عالمی پیمنٹ گیٹ ویز تک رسائی ممکن بنائی جائے تو اس شعبے کی برآمدات کو کئی گنا تک بڑھایا جا سکتا ہے۔ مختصریہ کہ آئندہ چند برسوں میں برآمدات کو دُگنا کرنا ناممکن نہیں‘ ضرورت اس امر کی ہے کہ مستقل اور جامع پالیسی وضع کی جائے اور برآمدی شعبوں کی سرپرستی کی جائے۔ وزیر منصوبہ بندی کی یہ تنبیہ ذہن نشین رہنی چاہیے کہ اگر آئندہ آٹھ برسوں میں برآمدات کا حجم 100 ارب ڈالر تک نہ بڑھایا گیا تو پاکستان قرضوں کے جال میں جکڑا رہے گا۔