اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

قومی سلامتی کا عزم

نیشنل ایکشن پلان کی اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں قومی اتفاق رائے کے ساتھ دہشت گردی کے خطرات سے نمٹنے کا عزم دہرایا گیا۔ اپیکس کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ملکی ترقی اور خوشحالی کیلئے مرکز‘ صوبوں اور دفاعی اداروں کو مربوط حکمت عملی کے ساتھ دہشت گردی کا قلع قمع کرنا ہو گا۔بیشک ترقی کا عمل پُر امن ماحول میں پھلتا پھولتا ہے۔ پچھلے چند برس سے ملک میں دہشتگردی کے واقعات میں جو اضافہ ہوا وہ بہت ہی تشویشناک ہے۔ ایسے وقت میں جب پاکستان معاشی استحکام کیلئے کوشاں ہے سکیورٹی خطرات ان کوششوں پر منفی اثر ڈالتے۔ یہ صورتحال پاکستان میں مساوی ترقی کی راہ میں بھی ایک بڑی رکاوٹ ہے۔سماجی بہتری‘ روزگارکے مواقع اور معاشی ترقی کیلئے ملک کے خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے علاقوں میں صنعتی سرگرمیوں کی اشد ضرورت ہے‘ مگر امن وامان کی ناقص صورتحال اس سلسلے میں بڑی رکاوٹ ثابت ہو رہی ہے۔خیبر پختونخوا کی قبائلی پٹی کی بات کی جائے توبد امنی کے ماحول نے یہاں سرمایہ کاری کا رجحان پنپنے نہیں دیانتیجتاً غربت ان دور دراز علاقوں کا مقدر بنی اور یہاں کے قدرتی وسائل اور انسانی صلاحیتوں سے ملک و قوم کو جو فائدہ ہو سکتاہے ہم اس سے محروم ہیں۔ غربت اور بنیادی سہولتوں کا فقدان ان علاقوں میں شدت پسندی کو فروغ دینے کیلئے عمل انگیز ثابت ہوا ہے۔ انتہا پسند عناصر ان علاقوں کی محرومی کا ذمہ ریاست پر ڈالتے ہیں حالانکہ وہ خود اس صورتحال کے اصل ذمہ دار ہیں اور مقامی آبادی کی محرومیوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ چنانچہ ضروری ہے کہ انتہا پسند ی سے متاثرہ ان علاقوں میں ہر قیمت پر امن بحال کیا جائے تا کہ مقامی آبادی کو بھی پُر امن ماحول میسر آئے اور مجموعی طور پر ملک میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہو۔ ماضی میں قبائلی علاقہ جات میں افواجِ پاکستان کی کئی سالوں کی کوششوں سے دہشت گردی کا خاتمہ ہوا اور صورتحال اس حد تک پُر امن تھی کہ لوگ بے جھجھک ان علاقوں کا سفر کرتے تھے اور ان علاقوں میں سرمایہ کاری اور صنعتکاری کے امکانات تلاش کیے جانے لگے۔ تاہم افغانستان میں حالات کی تبدیلی کا پاکستان کے قبائلی پٹی کے علاقوں کے امن پر شدید اثر پڑا۔ 2021 ء میں کابل کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد افغان طالبان نے پاکستانی دہشت گرد عناصر کیلئے نرم گوشہ اختیار کیا‘ بہت سے دہشت گرد جو جیلوں میں بند تھے انہیں رہائی مل گئی اور باقی جو چھپے ہوئے تھے انہیں بھی کوئی خوف خطرہ نہ رہا۔ نتیجے کے طور پر پاکستان میں دہشت گردی کے خطرات میں روزبروز اضافہ ہونے لگا۔ دہشت گردی کے واقعات اور جانی نقصان کے لحاظ سے 2024ء گزشتہ 9 سال میں سب سے خطرناک تھا۔ اس سال دہشت گردی کے واقعات میں ہونے والا جانی نقصان ایک برس پہلے کے مقابلے میں 63 فیصد زیادہ تھا۔ دہشت گردی کے ان واقعات کی گرہیں براہِ راست ہمارے مغربی ہمسایہ ملک افغانستان سے بندھی ہیں‘ جس کیلئے پاکستان قریب پچاس برس سے قربانیاں دیتا آ رہا ہے‘ جہاں کے پناہ گزینوں کیلئے پاکستان نے دیدہ و دل فرشِ راہ کیے۔ ہمیں اس حقیقت کو مان کر چلنا ہو گا کہ افغانستان کی جانب سے جس بھائی چارے کی امید تھی‘ اب اس کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ نئی حقیقت‘ مضبوط دفاعی نظام اور خطرے کے خلاف پہلے اقدام کی حکمت عملی کا تقاضا کرتی ہے۔ پاکستان کیلئے اپنے دفاع‘ قومی سلامتی اور خود مختاری سے بڑھ کر کچھ نہیں‘ لہٰذا حکومت ہو یا حزبِ اختلاف یا سول سوسائٹی ملکی دفاع کیلئے سبھی کو یک زبان اور متفق علیہ ہونا چاہیے۔ سیاسی انتشار قومی ہم آہنگی میں ایک رکاوٹ محسوس ہوتا ہے‘ جس کے مظاہر سوشل میڈیا پربھی نظر آتے ہیں۔ یہ صورتحال تشویش کا باعث ہے‘ اور سیاسی ہم آہنگی سے اس تفرقے کو ختم کرسکتی ہے۔ بحیثیت قوم ہمیں قومی مفادمیں یکسو ہونا ہوگا‘ یہ قومی مفاد کیلئے ناگزیر ہے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں