اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

افغانستان سے درپیش خطرات

نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے گزشتہ روز پریس کانفرنس میں غیر قانونی تارکینِ وطن کے انخلا پر حکومتی مؤقف پیش کرتے جہاں افغان پناہ گزینوں کیلئے پاکستان کے دیرینہ ایثار کی روایت کا ذکر کیا‘ وہیں افغانستان کی جانب سے پاکستان کیلئے پیدا ہونے والے مسائل کو بھی تفصیل سے اجاگر کیا۔افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت کے قیام سے پاکستان کو مثبت امیدیں تھیں۔ ماضی میں افغان سرزمین کو جس طرح پاکستان دشمن قوتوں کیلئے کھلا چھوڑ دیا گیا‘ امید تھی کہ نئی افغان حکومت اس سلسلے میں نتیجہ خیز اور تسلی بخش اقدامات کرے گی اور جس طرح عندیہ دیا جارہا تھا کہ افغانستان کی سرزمین کسی کے خلاف استعمال نہیں ہونے دی جائے گی‘ اس قول کا پاس کیا جائے گا۔ افغانستان کے ہمسایہ ممالک کو بھی خوشی تھی کہ افغانستان میں اس اہم تبدیلی کے مثبت اثرات پورے خطے پر مرتب ہوں گے اور ترقی و خوشحالی کا خواب پورا ہو گا ۔ مگر اگست 2021ء کے بعد حقیقی طور پر جو کچھ سامنے آنا شروع ہوا‘ وہ ان توقعات کے برعکس تھا۔ افغانستان میں یہ تبدیلی ٹی ٹی پی کیلئے حوصلہ افزاثابت ہوئی اور اس دہشت گرد گروہ سے وابستہ جوافراد افغانستان کی جیلوں میںتھے طالبان کی عبوری حکومت نے آ تے ہی انہیں رہا کر دیا جبکہ افغان سرزمین پر جو پاکستان مخالف دہشت گرد موجود تھے ان کیلئے تنظیم سازی میں بھی سہولت پیدا ہو گئی ۔ اس طرح پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اگست 2021 ء کے بعد نمایاںاضافہ دیکھنے میں آتا ہے۔ پاکستان کو بجا طورپر افغان طالبان سے توقع تھی کہ وہ افغان سرزمین پر پائے جانے والے ایسے عناصر کا قلع قمع کریں گے جو پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث ہیں‘ مگر طالبان اس سلسلے میں بھی اپنی اصولی ذمہ داری پور ی کرنے میں قطعی طور پر ناکام رہے۔ ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کا ڈول ڈالا گیا مگر افغان حکومت اس سلسلے میں بھی پاکستان کے حق میں کوئی پوزیشن لینے کے بجائے عملاً ٹی ٹی پی کے ساتھ کھڑی دکھائی دی اور منصفانہ پوزیشن لینے کے بجائے پاکستان پر ٹی ٹی پی کی ناجائز اور غیر قانونی شرائط قبول کرنے کیلئے دباؤ پیدا کرنے کی کوشش کرنے لگی۔ افغانستان کی عبوری حکومت کا یہ رویہ پاکستان کیلئے سخت مایوسی کا سبب تھا ۔ نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے گزشتہ روز کی پریس کانفرنس میں جو اعدادوشمار پیش کیے وہ کافی چونکا دینے والے ہیں۔ مثال کے طور پرافغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت قائم ہونے کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں 60 فیصد اور خود کش حملوں میں 500 فیصد اضافہ ہوا اور اس دوران پاکستان میں 2267 افراد دہشت گردوں کے حملوں میں لقمۂ اجل بنے ۔ پچھلے دو سال کے دوران دہشت گردی کے متعدد واقعات میں افغان نژاد شدت پسند ملوث پائے گئے جبکہ افغانستان میں درکار سہولتوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ٹی ٹی پی نے اپنی سرگرمیاں کافی حد تک بڑھا لیں اور اپنے جیسے دیگر انتہا پسند گروہوں کیساتھ گٹھ جوڑ کر کے پاکستان کی سلامتی کیلئے سنجیدہ خطرات پیدا کیے۔ اس صورتحال کی جانب افغانستان کی عبوری حکومت کی جب بھی توجہ دلائی گئی وہاں سے اس کا مثبت جواب نہیں آیا۔ پاکستانی شکایات کو افغان طالبان کی جانب سے جس بے رخی سے نظر انداز کیا گیا وہ رویہ بذاتِ خودناقابلِ قبول تھا۔ افغانستان کی جانب سے درپیش سنجیدہ خطرات پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم افغان شہریوں کے انخلا کا ایک منطقی جواز ہیں‘ کیونکہ ان حالات میں جب افغانستان اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں  ناکام ثابت ہو رہا ہے پاکستان کیلئے قومی سلامتی کے تحفظ کیلئے ضروری ہو جاتا ہے کہ ایسے افراد کو ملک سے نکالا جائے جن کے کوائف ہمارے قومی نظام کے پاس نہیں اور جن کی جانب سے دہشت گردی اور دہشت گردی کی سہولت کاری کا ہمہ وقتی خطرہ رہتا ہے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں