اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

عام انتخابات ، بڑا قدم

انتخابی اخراجات کی مد میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کو 17 ارب 40کروڑ روپے کا اجرا عام انتخابات کے بروقت انعقاد کی جانب اہم پیشرفت ہے۔رواں مالی سال کے بجٹ میں عام انتخابات کیلئے 42 ارب روپے مختص کیے گئے تھے اور اس میں سے 10ارب روپے پہلے ہی الیکشن کمیشن کو فراہم کیے جا چکے ہیں یوں کُل ملا 27ارب 40کروڑروپے الیکشن کمیشن کو فراہم کیے جاچکے ہیں جبکہ نگران وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی یہ واضح کر چکے ہیں کہ ہم آئین کے آرٹیکل (3) 218کے تحت آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے انعقاد کیلئے الیکشن کمیشن کے ساتھ کھڑے ہیں‘ الیکشن کمیشن کو جو رقم بھی درکار ہو گی اس کی ضروریات کے مطابق جاری کر دی جائے گی۔انتخابات کے حوالے سے سکیورٹی امور پر بھی الیکشن کمیشن کی جانب سے وفاقی وزارتِ داخلہ کو خط لکھ کر صورتحال اور مطالبات سے آگاہ کر دیا ہے۔ اس سلسلے میں وزارتِ داخلہ کل تک الیکشن کمیشن کو جواب دے گی۔ مالی وسائل کی طرح امید ہے کہ سکیورٹی انتظامات کے تقاضوں پر بھی حکومت کی جانب سے الیکشن کمیشن کیساتھ مکمل تعاون کیا جائے گا۔ یہ الیکشن کے بروقت انعقاد کی جانب بڑی پیشرفت ثابت ہو گی اور الیکشن کے حوالے سے بعض حلقوں کی جانب سے جو شبہات پھیلانے کی کوشش کی جاتی ہے‘ ان اقدامات سے اُن کا بھی ازالہ ہو گا۔ سیاسی جماعتوں کی جانب سے بھی سیاسی تحرک میں تیزی نمایاں ہے۔ ممکنہ اتحادیوں کے روابط و ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے اور بڑی حد تک انتخابی منظر نامہ واضح ہونا شروع ہو چکا ہے۔ اس دوران جب انتخابات کی جانب یہ پیش قدمی نظر آتی ہے ملک کے سکیورٹی حالات بھی توجہ طلب ہیں۔ گورنر خیبر پختونخوا کے اس بیان سے تشویش پیدا ہوئی ہے کہ صوبہ خیبر پختونخوا کے بعض علاقوں میں انتخابی سرگرمیاں مشکل ہوں گی۔وفاقی اور صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ اس معاملے پر خصوصی توجہ دی جائے۔ امن و امان کے مسائل کہیں کہیں ضرور ہو سکتے ہیں مگریہ ایسی صورتحال نہیں کہ اسے قابو سے باہر قرار دیا جائے۔ خدشات کسی حد تک بجا ہیں مگر انہیں بڑھا چڑھا کر پیش کرنا اور اس سے انتخابات کے التوا کا جواز تراشنا مناسب نہیں؛ چنانچہ وفاقی حکومت کو یقینی بنانا چاہیے کہ امن و امان کے حوالے سے جو انتظامات ناگزیر ہیں وہ بھی کسی طرح کی تاخیر کا شکار نہ ہوں۔ان حالات میں سب سے اہم چیلنج الیکشن کمیشن کیلئے ہے کہ انتخابات میں تمام سیاسی جماعتوں کو یکساں مواقع میسر آئیں اور انتخابات آزادانہ‘ غیر جانبدارانہ اور منصفانہ ہوں۔ یہاں یہ بات کئی بار دہرائی جاچکی ہے کہ ملک کو اس وقت جس طرح کے سیاسی بحران کا سامنا ہے‘ ایسے میں شفاف اور معیاری انتخابات ہی ملک میں نارمل سیاسی حالات پیدا کرسکتے ہیں۔ پچھلے کم از کم دو انتخابات کے دوران ہم دیکھ چکے ہیں کہ انتخابات پر اٹھنے والے اعتراضات کس طرح ملک کو لپیٹ میں لیتے چلے گئے۔ ان کا نقصان وسیع تر تھا۔ معیشت رو بہ زوال ہوئی‘ سماج پر اس سیاسی تناؤ اور ٹکراؤ کے منفی اثرات مرتب ہوئے اور معاشرہ تخریبی سرگرمیوں کا شکار ہوا۔ آج پاکستان کا عام شہری جس کسمپرسی کے عالم میں ہے اسکی امیدیں ماضی کے ادوار کی کہانیوں سے نہیں آنے والے دور میں استحکام کی نوید کے ساتھ قائم کی جاسکتی ہیں۔ اس سلسلے میں شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات کو بنیاد کا پتھر سمجھنا چاہیے؛لہٰذا معیاری انتخابات اس وقت بنیادی اہمیت کی اولین قومی ترجیح ہونے چاہئیں۔الیکشن کمیشن کو اس سلسلے میں گزشتہ کم از کم دو عام انتخابات کے دوران پیش آنیوالے تنازعات کی وجوہ پر بھی نظر رکھنی چاہیے۔قومی معاملات میں سست روی یا غفلت کی کوئی گنجائش نہیں نہ ہی پرانی غلطیاں دہرانے کی یا غلطیوں کے نئے ریکارڈ قائم کرنے کی۔ ملک میں معاشی استحکام کا عمل شروع ہے مگر اس سے حقیقی فوائد ملک میں سیاسی استحکام سے مشروط ہیں‘ جس کیلئے شفاف انتخابات ناگزیر ہیں۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں