اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

عام انتخابات‘ قومی مستقبل کا معاملہ

انتخابات سے قبل سیاسی جماعتوں کے قائدین سے جس تدبر کی امید تھی وہ ہنوز پوری ہوتی دکھائی نہیں دے رہی۔عام انتخابات ملک و قوم کے مستقبل کا معاملہ ہوتے ہیں؛ چنانچہ اس دوران ضروری ہو تا ہے کہ سیاسی رہنما آنے والے وقت کے حوالے سے اپنی حکمت عملی اور سوچ واضح کریں‘ جبکہ ہماری سیاسی قیادت ماضی کے ملال میں گم ہے۔مگر اس سے کچھ حاصل ہو سکتا ہے؟ بادی النظر میں اس کا جواب نفی میں ہے‘ کہ ماضی کو تبدیل کرنا آدمی کے بس میں نہیں۔ ہم صرف آنے والے وقت کو تبدیل کر نے کے قابل ہیں اور اس کام میں ماضی ہمارے لیے سبق آموز ثابت ہو سکتا ہے۔اگر سیاست کا رُخ ماضی کی جانب رہے گا تو مستقبل کی اصلاح کا امکان کم سے کم ہوتا جائے گا۔ اس سلسلے میں سیاسی قائدین کو دنیا سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ اشخاص اور اقوام پر ناروا دور بھی آئے مگر کامیاب وہی ٹھہرے جنہوں نے ماضی کو خود پر سوار نہیں کیا اور نہ اسے انتقام کا محرک بنایا‘ بلکہ اپنی توجہ کا رُخ مستقبل کی جانب رکھا۔ ہمارے سیاستدانوں کو بھی یہی روش اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ ذاتیات سے اوپر اٹھنا اور ملک کے حقیقی مسائل سے نمٹنا بذات خود اتنا بڑا چیلنج ہے کہ سیاسی قیادت اگر حقیقی معنوں میں قائدانہ کردار ادا کرنے کا سوچے تو اس کے پاس کہیں اور دیکھنے اور ماضی کے غم میں دل گرفتہ ہونے کی گنجائش ہی نہیں بنتی۔ کیا نہیں دیکھتے کہ ہمارا ملک اس خطے کے دیگر ممالک سے پیچھے رہ گیا ہے۔ مہنگائی ہمارے ہاں اس وقت 42فیصد تک پہنچ چکی ہے‘ صنعتی پہیہ ہمارا جمود کا شکار ہے‘ تجارت ہماری اس خطے کے اکثر ممالک کی نسبت بہت کم ہے۔ ملک و قوم کے ان حقیقی اور سنگین نوعیت کے مسائل کا حل ماضی سے نہیں حال سے مؤثر ہو سکتا ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ اس پسماندگی اور محرومی میں اُن غلطیوں کا بہت عمل دخل ہے سیاسی قائدین جن کے شاکی ہیں‘ مگر جو بنیادی مسائل اس وقت پہلی ترجیح ہونے چاہئیں ان کا مداوا آگے کی طرف دیکھنے اور اقدامات سے ممکن ہے۔ قوموں کی زندگی میں پائیدار اصلاح کیلئے ماضی کو بھلانا پڑتا ہے‘ خواہ اس کو مفاہمت کی وسیع تحریک کے طور پر اختیار کیا جائے یا انفرادی سطح پر دوراندیشی سے کام لیتے ہوئے آگے کی طرف دیکھنے کا فیصلہ کیا جائے۔ یہ مثبت سوچ ملک و قوم ہی کیلئے نہیںخود سیاست کیلئے اشد ضروری ہے۔ اس میں دو رائے نہیں کہ اس وقت ملکی سیاسی جماعتیں مقبولیت کے شدید بحران سے دوچار ہیں۔ کوئی جماعت دراصل کتنے پانی میں ہے‘ اگرچہ اس کا درست تعین انتخابات ہی سے ممکن ہو گا‘ بہرکیف سیاسی جماعتوں کیلئے عوامی چیلنجز ظاہر و باہر ہیں اور اس صورتحال کے اسباب بھی کھلا راز ہیں۔ عوامی عدم اطمینان اور اعتماد کے خسارے کی سب سے بڑی وجہ معاشی بحران ہے جس سے متوسط اور نچلے درجے کے طبقات کا ہر فرد متاثر ہوا ہے۔ ان حالات میں عوام یہ جاننے میں دلچسپی رکھتے ہیں کہ سیاستدان ان کی اور ملک کی بہتری کیلئے کیا کرنا چاہتے ہیں؛ چنانچہ ضروری ہے کہ انتخابات سے پہلے عوام کو اس حوالے سے اعتماد میں لیا جائے۔ مگر اس سلسلے میں ابھی تک کسی جماعت کی جانب سے مؤثر بیانیہ سامنے نہیں آسکا۔ ایک طرف لیول پلینگ فیلڈ کے دکھڑے ہیں اور دوسری جانب نوے کی دہائی میں حکومتیں جانے کی شکایتیں۔ ضروری ہے کہ قومی سیاست کے بیانیے کو اس گھٹن سے نکالا جائے۔ ملک کے حقیقی مسائل بے پایاں ہیں اور سیاسی لیڈروںکو اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ سیاسی قائدین خاطر جمع رکھیں کہ ماضی کی ناانصافیوں‘ زیادتیوں یا جو بھی اسے کہا جائے‘ کا ازالہ ماضی میں جا کر تو ممکن نہیں‘ البتہ یہ تلافی اسی طرح ممکن ہے کہ ایسی حکمت اور تدبر کو بروئے کار لایا جائے کہ آنے والے وقت میں وہ اندیشے باقی نہ رہیں جنہوں نے جمہوریت کو پنپنے نہیں دیا اور ہم آج تک ان کا بھگتان بھگت رہے ہیں۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں