اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

نئی پہل ناگزیر ہے!

سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ملکی حالات کے ذمہ دار ہم خود ہیں‘ چار دن ترقی کے بعد پیچھے جانا شروع ہو جاتے ہیں‘ ہمارے ہمسایہ ممالک چاند پر پہنچ گئے ہیں اور ہم ان سے بہت پیچھے ہیں‘ اپنے پائوں پر ہم نے خود کلہاڑیاں ماری ہیں۔ قائد مسلم لیگ (ن) کا اشارہ یقینا سیاسی عدم استحکام اور معاشی پالیسیوں میں عدم تسلسل کی طرف ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ہمارے بیشتر مسائل کی جڑیں ماضی کے ادوار کے غلط فیصلوں میں پیوست ہیں۔ اگرچہ وطنِ عزیز کے قیام کے فوری بعد بانیانِ پاکستان داغِ مفارقت دے گئے جس سے نوزائیدہ ملک کو اپنے قدموں پر کھڑا ہونے کا موقع میسر نہیں آ سکا اور یہاں ایک سیاسی خلا پیدا ہوا گیا جبکہ سیاستدانوں کی اگلی کھیپ اس سیاسی خلا کو پُر کرنے کے بجائے اسے اپنے سیاسی مفاد کیلئے استعمال کرنے میں مصروف ہو گئی جس سے ہمیں مضبوط سیاسی بنیادیں میسر نہیں آ سکیں؛ تاہم المیہ یہ ہے کہ بعد میں آنے والوں نے بھی اپنی ذمہ داری کا ادراک نہیں کیا اور غیر پسندیدہ سیاسی روایات کے تسلسل کو جاری رکھا۔ 1990 ء کی دہائی اس ضمن میں ایک مثال کا درجہ رکھتی ہے کہ جب یکے بعد دیگرے چار جمہوری حکومتوں کو رخصت کیا گیا اور نتیجتاً ملک آمریت کی کھائی میں اُتر گیا۔ سیاسی تاریخ شاہد ہے کہ آمرانہ ادوار میں سیاسی جماعتوں نے قدرے بالغ نظری کا مظاہرہ کیا اور مخالفین کے ساتھ مل بیٹھنے اور جمہوری انداز سے تبدیلی لانے کی کوشش جاری رکھی۔ 2006ء میں ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کا میثاقِ جمہوریت پر اتفاق خوش آئند پیش رفت تھی جس میں مل کر آگے بڑھنے کا عہد باندھا گیا تھا اور مسائل کو جمہوری انداز سے پارلیمان کے اندر حل کرنے پر اتفاق کیا گیا مگر جب اقتدار جمہوری حکومتوں کے پاس آیا تو ماضی کے عہد و پیمان کو یکسر مسترد اور معاہدات کو فراموش کر دیا گیا۔ حصولِ اقتدار کیلئے دوبارہ غیر جمہوری ہتھکنڈوں کا استعمال شروع ہو گیا جس کا خمیازہ سیاسی جماعتوں سے زیادہ ملک و قوم کو بھگتنا پڑا۔ 2008ء کے بعد سے تینوں اسمبلیوں نے اپنی آئینی مدت مکمل کی ہے‘ مگر اس دوران ملک خاطر خواہ ترقی نہیں کر سکا ۔ سیاسی تسلسل تو قائم ہو گیا مگر سیاسی استحکام ایک خواب ہی رہا۔ وجہ یہ ہے کہ حکومتوں کی تبدیلی کے ساتھ معاشی پالیسیاں بھی تبدیل ہو جاتیں جس کے سبب معاشی استحکام نہیں آ سکا۔ سیاسی حکومتوں کی تبدیلی اور رخصتی ہر جمہوری معاشرے کا لازمہ ہے مگر وہاں معاشی اتھل پتھل کی وہ صورتحال نہیں ہے جو اس وقت ایک گمبھیر بحران کی صورت میں ہمیں درپیش ہے۔ مادرِ جمہوریت سمجھے جانے والے برطانیہ کی مثال ہمارے سامنے موجود ہے کہ جہاں گزشتہ پندرہ ماہ میں تین وزرائے اعظم دیکھے گئے‘ مگر اس کے باوجود نہ وہاں سیاسی انتشار کی کیفیت دیکھنے میں آئی نہ ملک کے دیوالیہ ہونے کا خدشہ ظاہر کیا گیا۔ ہمارے ہاں مسائل کا ادراک سب کو ہے مگر ان کے حل کی جانب قدم بڑھانے کو کوئی تیار نہیں۔ اس وقت ملک کو سیاسی استحکام کیساتھ ساتھ طویل المدت معاشی پالیسیوں اور میثاقِ معیشت یعنی ایک نئے عمرانی معاہدے کی اشد ضرورت ہے تاکہ سیاسی تبدیلیاں معاشی عمل پر اثر انداز نہ ہوں اور ملک ترقی کی ڈگر پر گامزن رہے۔ یہ کام سیاسی اور ریاستی اداروں کی شمولیت کے بغیر ممکن نہیں۔ سیاستدان اس نئے عمرانی معاہدے میں بنیادی فریق کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اگر ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ ماضی کی غلطیوں کا ادراک کرتے ہوئے انہیں سدھارنا چاہتے ہیں تو اس ضمن میں انہیں اپنے شعبے سے ابتدا کرنی چاہیے۔ سیاسی جماعتوں کے سربراہان کو ایک میز پر اکٹھا کرنا چاہیے تاکہ ملکی تعمیر و ترقی کیلئے ایک نئے میثاق کی بنیاد رکھی جا سکے۔ جب تک سیاستدان ماضی کی غلطیوں کو سدھارنے پر خود سنجیدہ نہیں ہوں گے اس وقت تک نئی پہل نہیں کی جا سکتی۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں