اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

نئے جمہوری و پارلیمانی سفر کا آغاز

گزشتہ روز نومنتخب ارکانِ قومی اسمبلی نے حلف اٹھا لیا جبکہ چاروں صوبائی اسمبلیوں کے اراکین پہلے ہی حلف اٹھا چکے‘ اس کے ساتھ ہی ملک میں ایک نئے جمہوری و پارلیمانی سفر کا آغاز ہو گیا ہے۔ اگرچہ قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرنے کے معاملے پر ایوانِ صدر اور حکومت کے مابین ایک تنائو دیکھنے کو ملا اور صدر کی جانب سے انکار کے بعد سپیکر قومی اسمبلی نے اسمبلی کا افتتاحی اجلاس طلب کیا؛ تاہم بدھ کو رات گئے صدرِ مملکت نے اعتراضات کے باوجود‘ نگران وزیراعظم کی جانب سے بھیجی گئی سمری کی منظوری دے دی اور یوں اسمبلی کے اجلاس کی طلبی کا معاملہ خوش اسلوبی سے طے پا گیا۔ جمعرات کو قومی اسمبلی کے 336 میں سے 302 اراکین نے ملک سے وفاداری کا حلف اٹھایا اور رول آف ممبر پر باری باری دستخط کیے۔ اس طرح حکومت سازی کا ایک مرحلہ بخوبی طے پا گیا ہے۔ اگرچہ اس دوران ایوان میں نعرے بازی کا سلسلہ بھی جاری رہا مگر خوش آئند بات یہ ہے کہ یہ مرحلہ پُرامن طریقے سے انجام پایا۔ بہتر ہوتا کہ نئے ایوان میں سیاسی قیادت کی مفاہمانہ سوچ کی جھلک دکھائی دیتی اور سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر اراکین آپس میں ایک دوسرے سے مصافحہ اور معانقہ کر کے جمہوری اقدار کے فروغ کے حوالے سے کام کرتے۔ یقینا ایسا منظر نامہ ملکی سیاست کی ایک نئی روایت قرار پاتا اور اس سے یہ تاثر بھی اجاگر ہوتا کہ ہمارے ملک میں جمہوریت اور پارلیمان استحکام کی راہ پر گامزن ہیں اور وہ خواب‘ جو اس ملک کے عوام نے چھہتر برس سے اپنی آنکھوں میں سجا رکھے ہیں‘ اب ان کی تعبیر کا وقت آ گیا ہے؛ تاہم ایسا نہ ہو سکا اور تمام وقت اجلاس میں فریقین کے مخالفانہ نعرے گونجتے رہے۔ اگرچہ اس حوالے سے کوئی دو رائے نہیں کہ سیاسی قیادت کو مفاہمت‘ رواداری اور یگانگت کو فروغ دے کر ملک کو آگے لے کر جانا ہے مگر محض سیاسی قائدین کا رویہ تبدیل ہونا ہی کافی نہ ہو گا بلکہ ملک کے ہر باشندے کو اس میں اپنا حصہ ڈالنا ہو گا۔ اور یہ اسی صورت ہو سکتا ہے کہ جب پاکستانی قوم اپنی سوچ میں وسیع پیمانے پر تبدیلی لائے۔ قومی سطح پر سوچ کی تبدیلی کی ضرورت اس لیے بھی ہے کہ سردست ہمارا شمار ایک غیر منظم قوم کے طور پر ہوتا ہے۔ اجتماعی کے بجائے انفرادی مفادات میں الجھی ہوئی قوم‘ جو نہ صرف اپنی منزل سے کوسوں دور ہو بلکہ اسے اپنی سمت ہی کا اندازہ نہ ہو۔ گزشتہ ساڑھے سات دہائیوں میں یہاں ہر طرح کے حکمران آئے اور مختلف دلفریب نعروں سے عوام کو بہلانے کی کوشش کی مگر لگ بھگ سبھی نے اپنی ذمہ داریوں میں جو کوتاہیاں برتیں‘ ان کے سبب آج عوام کی اکثریت کو صحت اور تعلیم‘ کام کرنے اور کمانے کے مواقع اور مکان جیسی بنیادی سہولتیں تو کجا‘ صاف پانی‘ خالص خوراک اور سانس لینے کو صاف ہوا تک میسر نہیں ہیں۔ اس ناکامی کی کئی وجوہ ہو سکتی ہیں مگر تمام خرابیوں کی ایک مرکزی علت یہ رہی کہ یہاں طرزِ حکمرانی کے لاتعداد تجربات کیے گئے اور اکثر و بیشتر نے ملکی مفادات پر اپنے گروہی‘ سیاسی اور انفرادی مفادات کو ترجیح دی۔ ہمارے قومی مسائل اربابِ حل و عقد کی عدم توجہی کے سبب آج ایک پہاڑ کی صورت نظر آ رہے ہیں۔ اگرچہ سیاسی قیادت کو یہ ادراک ہے کہ اس وقت مسائل جس نہج پر پہنچ چکے ہیں‘ انہیں حل کرنا کسی ایک پارٹی کے بس کا روگ نہیں ہے اور اقتدار کا یہ تخت کانٹوں کی سیج بن چکا ہے‘ اس کے باوجود نفرین آمیز رویوںکو فروغ دے کر نئے سفر کی ابتدا کرنا خود فریبی کے سوا کچھ نہیں۔ نومنتخب ممبران کو عوام نے اپنے مسائل کے حل کیلئے ایوانوں میں بھیجا ہے‘ اگر وہاں بھی باہمی مکالمے اور مل بیٹھ کر مسائل حل کرنے کے بجائے طنز و تضحیک اور نفرت کا بیوپار جاری رہا تو مسائل کے حل کی رہی سہی امید بھی ختم ہو جائے گی۔مسائل کا حل اتحاد و اتفاق ہی سے ممکن ہے جبکہ نئے جمہوری و پارلیمانی سفر کے آغازکا تقاضا بھی یہی ہے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں