اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

حکومت سازی کا مرحلہ مکمل ہوا

قومی اسمبلی میں قائد ایوان کا انتخاب آج ہو رہا ہے جبکہ وزیر اعظم کی حلف برداری کی تقریب کل بروز پیر ہو گی ‘ اس کے ساتھ ہی وفاق اور چاروں صوبوں میں نئی حکومتوں کے قیام کا عمل مکمل ہو جائے گا۔نئی حکومتوں کا قیام جن حالات میںہو ا ہے انہیں غیر معمولی کہنا مناسب ہو گا۔ ملکی معیشت کی حالت پہلے ہی تسلی بخش نہ تھی مگر پچھلے دو برس کے سیاسی بحران نے اسے خراب تر کیا۔ کورونا کی عالمگیر وبا کے اثر سے نکلتے ہی پاکستانی معیشت سیاسی گرداب میں پھنس گئی اور یہ سب ایسے حالات میں ہوا جب واجب الادا قرضوں کا حجم نمایاں طور پر بڑھ چکا ہے ۔ 2011ء کے بعد سے ملک کا بیرونی قرض تقریباً دگنا جبکہ ملکی قرضوں میں چھ گنا اضافہ ہوا ہے۔2011ء میں مجموعی قرض اور واجبات 145ارب70کروڑڈالر تھے جو 2023ء میں 271ارب ڈالر سے تجاوز کر گئے۔بیرونی قرضوں کے مقابلے میں ملکی آمدنی میں اس ایک دہائی سے زائد عرصے میں نمایاں اضافہ نہیں ہوا۔ 2012 ء میں ملکی برآمدات کا حجم 23ارب 62کروڑ ڈالر اور درآمدات 44ارب 91کروڑ ڈالر کے قریب تھیں۔ 2023ء میں برآمدات 27ارب 73 کروڑ اور درآمدات تقریباً42ارب ڈالر رہیں۔ یعنی قریب ایک دہائی کے دوران سالانہ بنیاد پر ہماری برآمدات میں اضافہ نصف ارب ڈالر بھی نہیں بنتا۔یعنی آمدنی کی جانب کوئی بڑی پیش رفت نہیں مگر قرضوں کی جانب سے ہم دوگنا رفتار سے بڑھتے رہے ہیں۔یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ ان قرضوں کی ادائیگی کیسے ہو گی‘ یہ ایک کھلا راز ہے کہ اس کیلئے مزید قرض لینا پڑیں گے اور بلند ترین سطح کے ٹیکسوں اور اشیائے ضروریہ پر ناروا محصولات سے حکومت کو جو کچھ وصول ہو گا اس کا بڑا حصہ ان قرضوں کی ادائیگی کی نذر ہو جائے گا اور ٹیکس دے کر بھی عوام اپنے ٹیکس کی رقوم کے فائدے سے محروم رہیں گے۔ نئی حکومت کیلئے یہ چیلنجز ہیں کہ ڈنگ ٹپاؤ پالیسی اختیار کرنے کے بجائے پانچ سال کی مدت کو نظر میں رکھے اور اس کا ہدف یہ ہونا چاہیے کہ جب ان کے اقتدار کی مدت تکمیل کو پہنچے تو ملک کی معاشی حالت آج سے بہتر ہونی چاہیے۔اس کیلئے ضروری ہو گا کہ ماضی کی ناکامیوں کو تسلیم کیا جائے اور گھسے پٹے نسخوں کو دہرانے کی ضد ترک کرکے ایسے لوگوں کو ذمہ داریاں سونپی جائیں جو کچھ نیا کرنے کا دماغ رکھتے ہوں۔ وفاق میں پاکستان پیپلز پارٹی نے کابینہ میںشامل نہ ہونے کا عزم کیا ہے‘ اس فیصلے کے سیاسی محرکات اپنی جگہ مگر حکومت کی حمایت کیساتھ اگر یہ شرط نہ باندھی جاتی اور پیپلز پارٹی حکومتی ذمہ داریوں میں برابر شریک ہوتی تو امکان تھا کہ مشکل حالات کا سامنا کرنا نسبتاً آسان ہوتا۔ حکومت کی اتحادی جماعتیں اگر اب بھی اپنے عزائم پر نظر ثانی کر لیں تو یہ برمحل ہو گا۔ بنیادی چیلنج اس وقت ملکی نظام کا استحکام اور قوم کی کشتی کو اس بھنور سے نکالنا ہے ‘ اس کام میں سب کا حصہ ہے اور سبھی کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ صرف حکومتی اتحادی جماعتوں تک محدود نہیں حزبِ اختلاف کی جماعتوں کی ذمہ داری بھی کسی سے کم نہیں۔ اگر ان کی توجہ دھاندلی کے شور شرابے تک رہی اور قومی مسائل کے حل کیلئے مناسب تجاویز کیلئے باہم مشورے سے گریز کی روش اختیار کی تو یہ بڑی بد قسمتی ہو گی۔ ملک عزیز کے عوام نے سیاسی جماعتوں کو مینڈیٹ دیا ‘ اس لیے نہیں کہ ایوانِ اقتدار بدستور ہنگامہ آرائی کا گڑھ بنے رہیں۔ جمہوری سوچ کا تقاضا ہے کہ قومی معاملات میں ہم آہنگی نظر آئے ‘ ایک دوسرے کا احترام ملحوظِ خاطر رہے ‘ ملکی مسائل اور چیلنجز کیلئے سبھی ایک دوسرے کے دست و بازو بنیں۔ پاکستان کے عوام اپنے اقتدار کے ایوانوں میں اس متوازن منظر نامے کو ترس گئے ہیں۔ ایک عرصے سے ہمیں سیاسی انتہا پسندی کا سامنا ہے‘ جس کے قومی اخلاق اور مزاج پر منفی اثرات واضح ہیں۔ نئی منتخب قیادت چاہے تو اس میں قابلِ ذکر بہتری لائی جاسکتی ہے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں