رمضان سے قبل گرانی کی لہر
ملک بھر میں اس وقت مہنگائی کا مسئلہ سرفہرست ہے مگر رمضان المبارک کی آمد سے قبل اٹھنے والی گرانی کی لہر نے عوام کو بالکل بے بس کر دیا ہے۔ ایسے وقت میں جب حکومت کی جانب سے رمضان پیکیج پر 6 ارب 48 کروڑ روپے کی خطیر رقم مختص کی گئی ہے اور آٹے‘ چینی‘ گھی‘ چاول اور دالوں سمیت 19 بنیادی اشیا پر سبسڈی دینے کیلئے کروڑوں روپے مختص کیے گئے ہیں‘ عام مارکیٹ میں اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کئی گنا تک اضافہ ہو گیا ہے بالخصوص سبزیوں‘ پھلوں‘ چینی اور بیسن کی قیمتیں یکایک بڑھ گئی ہیں۔ عوام اس گراں فروشی پر دکانداروں کو اور دکاندار حکومت‘ آڑتھیوں اور ذخیرہ اندوزوں کو ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں۔ اس وقت مارکیٹ میں اچھی کوالٹی کا آٹا‘ بیسن‘ پھل‘ لیموں اور کھجور وغیرہ دستیاب نہیں جبکہ کم کوالٹی اشیا کے نرخ بھی خاصے بڑھ چکے ہیں۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ مارکیٹ میں اشیائے خوردنی کا عارضی بحران گراں فروش مافیا کا پیدا کردہ ہے جس کا مقصد زیادہ سے زیادہ منافع کمانا ہے۔ بدقسمتی سے یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ ماہِ رمضان کو ’کمائی کا سیزن‘ قرار دے کر اشیائے خور و نوش کی عارضی قلت پیدا کر کے انکی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کیا جا رہا ہو۔ یہ سلسلہ کئی دہائیوں سے جاری ہے اور ہر بار چند نمائشی اقدامات سے انتظامیہ و حکومت مطمئن ہو رہتے ہیں۔ حکومت کو فی الفور اس کا نوٹس لینا چاہیے اور انسدادِ گرانی کمیٹیوں کو فعال کر کے عام مارکیٹ میں بھی اشیا کی قیمتوں کو اعتدال میں رکھنا چاہیے تاکہ عوام ماہِ مقدس میں گرانی کی اضافی لہر سے محفوظ رہ سکیں۔