اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

شہباز شریف حکومت کے چیلنجز

مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف دوسری بار وزیراعظم منتخب ہو گئے ہیں۔ نو منتخب وزیراعظم کا گزشتہ روز قومی اسمبلی میں خطاب اُن کی حکومتی پالیسی اور ترجیحات کا آئینہ دار معلوم ہوتا ہے۔ شہباز شریف کا گزشتہ دور مہنگائی اور معاشی مشکلات سے بھر پور گزرا‘ جس کی شدت اب تک برقرار ہے۔ مالی مشکلات میں بڑا حصہ ملکی قرضوں اور قرضوں پر سود کی ادائیگی کا ہے‘ جس کیلئے عالمی مالیاتی ادارے کے درِ دولت پر حاضری ضروری ہو جاتی ہے۔ معاشی لحاظ سے نئی حکومت کو تقریباً اُسی قسم کے حالات کا سامنا ہوگا جیسا کہ پہلے دور میں تھا؛ البتہ شہباز شریف کی قیادت میں نئی حکومت کے حق میں جو بات جاتی ہے وہ یہ کہ انہیںآئی ایم ایف کے ساتھ معاملہ کرنے کا بالکل تازہ تجربہ ہے۔ سابقہ دور میں انہوں نے جن حالات میں جاری معاہدے کو منسوخ ہونے سے بچایا اور تین ارب ڈالر کے سٹینڈ بائی ایگریمنٹ کی منظوری حاصل کی‘ اس سے ملکی مالیاتی توازن کو کافی سہارا ملا۔ اب ایک بار پھر حکومت سنبھالنے کے ساتھ ہی معاملات وہیں سے شروع کرنا ہوں گے۔ مگر نئی حکومت کو عوامی مفادات کا تحفظ بھی کرنا چاہیے۔ سابقہ دور میں مالیاتی ادارے کی سخت شرائط پر عمل درآمد کا نتیجہ بلند ترین مہنگائی کی صورت میں سامنے آیا۔ مہنگائی کے حوالے سے حکمرانوں کا عام طور پر مؤقف یہ ہوتا ہے کہ وہ ایسے اقدامات کر رہے ہیں جن سے کم آمدنی والے طبقے پر مہنگائی کا کم سے کم اثر پڑ رہا ہے‘ حالانکہ کم آمدنی والے طبقہ ہی مہنگائی سے سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے اور حکومت کی جانب سے متعارف کرائی جانے والی سکیمیں مہنگائی میں ڈوبتے لوگوں کیلئے تنکا ثابت ہوتی ہیں؛ چنانچہ آئی ایم ایف کے ساتھ نئے معاہدے کے دوران حکومت کو عام آدمی کو بہرطور مدنظر رکھنا چاہیے اور یقینی بنانا چاہیے کہ اشیائے ضروریہ کی مہنگائی میں اضافہ نہ ہو۔ نئی حکومت کو پانچ برس کے دورانیے کو سامنے رکھ کر منصوبے بنانا ہوں گے‘ اس سلسلے میں بنیادی ترجیح یہ ہونی چاہیے کہ بیروزگاری میں کمی‘ برآمدات میں اضافہ اور قومی پیداوار کو ترقی دی جائے۔ حالیہ کچھ عرصے کے دوران برآمدات میں اضافے کا رجحان خوش آئند ہے‘ یقینا اس میں شہباز شریف کی سابق حکومت کے اقدمات کا عمل دخل بھی ہے‘ ضروری ہے کہ آنے والے پانچ برس کے دوران برآمدات کو دو گنا بڑھانے کا ہدف رکھا جائے اور اس کیلئے پوری محنت سے کام کیا جائے۔ ملکی معیشت کو سازگار حالات میسر آئیں تو اس ہدف کا حصول ناممکنات میں سے نہیں۔ اس کیلئے صنعتکاری کو فروغ دینا ہوگا کہ اس کے بغیر معاشی استحکام اور روزگار کے مواقع کو بڑھانا ممکن نہیں۔ حکومتی قیادت بھی وہی ہے اور مسائل بھی وہی‘ اب دیکھنا یہ ہے کہ نئے دور میں ان مسائل سے نمٹنے کیلئے کیا نادر حکمت عملی اختیار کی جاتی ہے۔ البتہ چند ایک اقدامات تو ناگزیر ہیں‘ جیسا کہ جناب وزیراعظم نے گزشتہ روز ایوان میں اپنی تقریر کے دوران خود ہی کہہ دیا کہ بجلی اور ٹیکس چوری زندگی اور موت کا مسئلہ ہے‘ بجلی اور ٹیکس چوری کا سارا بوجھ غریب اٹھاتا ہے۔ حکومت کو غیر ضروری اخراجات میں نمایاں کمی کرنے اور سادگی اختیار کرنے پر بھی غور کرنا چاہیے۔ اگر اس کیلئے مؤثر اقدامات کیے جائیں تو سالانہ ایک غیر معمولی رقم کی بچت کی جا سکتی ہے۔ مگر یہ طے ہے کہ حکومت ان معاملات پر اسی صورت پوری توجہ دے پائے گی جب ملک میں سیاسی افہام و تفہیم کا ماحول ہو گا۔ اس لیے حزبِ اختلاف کو بھی قومی معاملات میں اپنی ذمہ داریوں کو ملحوظِ خاطر رکھنا چاہیے۔ حکومت اور حزبِ اختلاف میں ایسے صحتمند مکالمے کی اشد ضرورت ہے جو سیاسی ہیجان کو ختم کر نے میں مدد دے سکے۔ ماضی میں شہباز شریف میثاقِ معیشت کی تجویز پیش کر چکے‘ اُس وقت وہ حزبِ اختلاف کے بینچوں پر تھے‘ اب انہیں پاکستان کی وزارتِ عظمیٰ کا بلند منصب دوسری بار حاصل ہوا ہے تو انہیں میثاقِ معیشت کو عملی شکل دینے کیلئے اس سے بہتر موقع نہیں ملے گا۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں