اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

بجلی کا شعبہ‘ اصلاحات ضروری !

نیشنل الیکٹرک ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کی جانب سے بجلی کی قیمت میں فی یونٹ تین روپے کے قریب مزید اضافے کا عندیہ دیا گیا ہے جبکہ بجلی کی ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن کے مسائل اور صارفین کو زائد بل بھیجنے جیسے مسائل جوں کے توں ہیں۔ وفاقی وزیر داخلہ کایہ بیان چونکا دینے والا ہے کہ لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی کی جانب سے 83کروڑ یونٹ کی اوور بلنگ کی گئی۔غیر معمولی پیمانے پر اوور بلنگ بجلی کی غیر معمولی پیمانے پر چوری اور تکنیکی ضیاع کی وجہ سے ہے‘ اس چوری شدہ یا ضائع ہو جانے والی بجلی کی ادائیگی کا بوجھ اُن صارفین پر ڈالاجاتا ہے جن کا اس معاملے سے کوئی لینا دینا نہیں مگر تقسیم کار کمپنیوںکی ناکامی کا ملبہ ان پر پڑتا ہے۔اوور بلنگ کی غلط روایت بجلی کے شعبے میں پائی جانے والی کئی اساسی نوعیت کی خامیوں کا نتیجہ ہے‘ جس کی صحیح طور پر نشاندہی نہیں ہو رہی کیونکہ زائد بل بھیج کر اس خسارے کو چھپا لیا جاتا ہے‘ حالانکہ جو صارف جتنی بجلی صرف کرتا ہے اس سے زائد کی ادائیگی کا مطالبہ کسی طور جائز نہیں۔ حکومت جہاں بجلی کی چوری کی روک تھام کیلئے سنجیدہ ہے اور گزشتہ برس سے اس سلسلے میں خصوصی مہم شروع کی گئی ہے‘ صارفین کو اوور بلنگ سے تحفظ فراہم کرنے کیلئے بھی اسی طرح سنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے۔ چوری اور اوور بلنگ پر قابو پالیا جائے تو بجلی کے شعبے کی بے ضابطگی اور بد نظمی سے بڑی حد تک نمٹا جاسکتا ہے۔ اس طرح ترسیلی نظام کی تجدید کی بھی اشد ضرورت ہے تاکہ ٹرانسمیشن لاسز‘ جو اس وقت جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک کی نسبت ہمارے ہاں خاصے زیادہ ہیں‘ انہیں کم کیا جاسکے۔ بجلی کی پیداوار میں قابلِ تجدید وسائل کا حصہ بڑھانے کی بھی اشد ضرورت ہے۔ ہمارے ہاں سورج کی روشنی سال بھر دستیاب ہے مگر اس سے توانائی کی پیداوار کا رجحان بہت کم ہے۔ حکومتی سطح پر آج بھی یہ رجحان نہیں ورنہ سرکاری دفاتر اور اداروں کی عمارتوں کیلئے شمسی توانائی سے کافی بچت ہو سکتی ہے۔شمسی توانائی کی حوصلہ افزائی کیلئے حکومت کی جانب سے جو اقدامات کیے گئے ہیں‘ جیسا کہ سولر پینلز پر ٹیکسوں سے استثنا‘ اس سے ان آلات کے اخراجات کم ہوئے ہیں‘ جبکہ روز بروز بجلی کی بڑھتی قیمتوں نے صارفین کو اس متبادل ذریعہ پیداوار کی جانب راغب کیا ہے۔ حکومتی سطح پر سولر انرجی کیلئے قرضوں کی سہولت اس رجحان کو تقویت فراہم کر سکتی ہے۔ ہمارے ہاں بجلی کی قیمتوں میں اضافے کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ ہماری پیداوار میں درآمدی ایندھن کا حصہ خاصا بڑاہے۔ 63فیصد سے زائد بجلی درآمدی ایندھن سے پیدا کی جارہی ہے اور اس کا نتیجہ صرف بجلی کی مہنگی پیداوار ہی نہیں بلکہ ان وسائل کی بروقت دستیابی نہ ہونے کی وجہ سے بجلی کے شارٹ فال کا مسئلہ بھی درپیش رہتا ہے۔داخلی سطح پر ہم جانتے ہیں کہ قدرتی گیس کے وسائل ملکی ضروریات کی کفایت نہیں کرتے مگر مہنگی درآمدی گیس پر کلیدی انحصار کے بجائے مقامی کوئلے پر انحصار کیا جا سکتا ہے۔ درآمدی کوئلے سے چلنے والے منصوبوں کو مقامی کوئلے پر منتقل کرنے سے قیمتی زرِمبادلہ بچایا جا سکتا ہے اور بجلی کی پیداواری لاگت بھی خاصی کم کی جاسکتی ہے۔ پن بجلی کے منصوبوں کو بھی قومی ترجیحات میں نمایاں مقام دینا وقت کی ضرورت ہے کیونکہ پیداواری لاگت اور ماحولیاتی اثرات کے اعتبار سے پن بجلی کا کوئی متبادل نہیں۔ بجلی کے شعبے میں پائیداراصلاحات کے بغیر بجلی کے گردشی قرضوں میں کمی اور صنعت و پیداوار اور گھریلو صارفین کیلئے سستی توانائی ممکن نہیں۔ بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا نہ رکنے والا سلسلہ مسائل کا حل نہیں بلکہ اضافے کا ذمہ دار ہے۔ مہنگی بجلی صنعتی پیداوار کی مسابقتی صلاحیت ختم کر چکی ہے جبکہ عام صارفین کیلئے بجلی کے بلوں کی ادائیگی اس وقت بہت بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ تقسیم کار کمپنیاں تو صارفین کو اضافی بل بھیج کر اپنی ناکامیوں کو چھپا لیتی ہے مگر لوگوں کی محدود قوتِ خرید اس اضافی دباؤ کی متحمل نہیں ہو سکتی۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement