اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں اہلِ ایمان کو ایک دوسرے کا بھائی قرار دیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ الحجرات کی آیت10 میں ارشاد فرماتے ہیں ''بیشک مومن تو آپس میں بھائی بھائی ہیں‘‘۔ اس حقیقت کو احادیث طیبہ میں بھی مختلف انداز میں بیان کیا گیا ہے‘ اسی حوالے سے صحیح مسلم میں حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ''مسلمانوں کی ایک دوسرے سے محبت‘ ایک دوسرے کے ساتھ رحم دلی اور ایک دوسرے کی طرف التفات و تعاون کی مثال ایک جسم کی طرح ہے‘ جب اس کے ایک عضو کو تکلیف ہوتی ہے تو باقی سارا جسم بھی بیداری اور بخار کے ذریعے سے اس کا ساتھ دیتا ہے‘‘۔ اس حدیث پاک سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ مسلم اُمت ایک جسدِ واحد کی مانند ہے اور کسی ایک مقام پر ہونے والے ظلم اور زیادتی کا اثر فقط اس خطے کے مسلمانوں پر نہیں ہوتا بلکہ پوری اُمت اس درد کو محسوس کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے کئی مقامات پر مسلمانوں پر ہونے والے ظلم کی وجہ سے عالم اسلام میں بہت زیادہ اضطراب پایا جاتا ہے۔ فلسطین‘ کشمیر اور میانمار کے مظلوم مسلمانوں کے حوالے سے ہر دردمند مسلمان کے دل میں تشویش پائی جاتی ہے۔
فلسطین کے مسلمان ایک عرصے سے صہیونی یہود کے ظلم اور زیادتی کا شکار ہیں جس کی وجہ سے دنیا بھر کے باشعور اور حساس مسلمان ہر وقت بے چین اور مضطرب رہتے ہیں اور اپنے اس درد کا اظہار تحریروں اور تقریروں کے ذریعے کرتے رہتے ہیں۔ یہود کا فلسطین پر غاصبانہ قبضہ ہر اعتبار سے قابلِ مذمت ہے۔ ماضی میں بھی یہودی وقفے وقفے سے فلسطین کے مسلمانوں پر ظلم اور زیادتی کرتے رہے ہیں لیکن گزشتہ 200 دنوں سے جاری ظلم نے ماضی کے تمام مظالم اور زیادتیوں کو ماند کر کے رکھ دیا ہے۔ صہیونی یہودکے ظلم اور زیادتیوں کے نتیجے میں ہزاروں مسلمان شہید اور زخمی ہو چکے‘ لاکھوں گھروں کو مسمار کیا جا چکا‘ بڑی تعداد میں خواتین اور بچوں کو شہید کیا جا چکا۔ اس ظلم کی مذمت کیلئے وقفے وقفے سے پاکستان میں پروگراموں کا انعقاد کیا جاتا رہا ہے۔ اسی حوالے سے 27 اپریل بروز ہفتہ‘ لاہور میں'' حرمتِ اقصیٰ کنونشن‘‘ کا انعقاد کیا گیا جس میں غزہ کے مفتی اعظم نے خصوصی شرکت کی جبکہ بہت سی مذہبی جماعتوں کے قائدین مقررین میں شامل تھے۔ اس موقع پر غزہ کے مفتی اعظم ڈاکٹر محمود یوسف الشوبکی نے جن خیالات کا اظہار کیا‘ اُن کا خلاصہ یہ ہے: فلسطین کا مسئلہ صرف زمین کا نہیں بلکہ درحقیقت یہ بیت المقدس کا مسئلہ ہے۔ جب سے اس مقدس سرزمین پر یہودیوں کا تسلط قائم ہوا ہے‘ اس وقت سے عالم اسلام پر اس کی آزادی کے لیے کردار ادا کرنا فرض ہے۔ آج پوری دنیا میں مسلمان تعداد میں زیادہ ہونے کی باوجود ذلت و مسکنت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ میں او آئی سی سے مطالبہ کرتا ہوں کہ غزہ کے حوالے سے اجلاس طلب کیا جائے تاکہ کوئی مضبوط لائحہ عمل تیار کیا جا سکے۔
اس موقع پرجماعتِ اسلامی کے نائب امیر لیاقت بلوچ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم فلسطین کے مفتی اعظم کو اس بات کا یقین دلاتے ہیں کہ اُمت مسلمہ کے دیگر حصوں کی طرح پوری پاکستانی قوم بھی القدس اور غزہ کے مظلوم مسلمانوں کے ساتھ کھڑی ہے۔ جماعت اہل حدیث کے رہنما حافظ عبدالغفار روپڑی نے خطاب کرتے ہوئے کہا ''اگر حکومت اس سلسلے میں اپنا کردار ادا نہیں کر سکتی تو اسے چاہیے کہ وہ پاکستان کے عوام کو اس بات کی اجازت دے کہ وہ اسرائیل کے مظالم کا مقابلہ کرنے کیلئے غزہ جا سکیں۔ اگر حکومت اجازت دے تو پاکستان کے مسلمان چند دنوں میں اسرائیل کی جارحیت کا منہ توڑ جواب دے کر غزہ کے مسلمانوں کو اُن کا حق دلا سکتے ہیں‘‘۔ اس موقع پر مرکزی مسلم لیگ کے رہنمائوں خالد محمود سندھو‘ قاری یعقوب شیخ اور پروفیسر سیف اللہ خالد نے بھی اپنے جذبات کا اظہار کیا۔'' حرمتِ اقصیٰ کنونشن‘‘ میں مجھے بھی خطاب کی دعوت دی گئی‘ اس موقع پر میں نے جن خیالات کا اظہار کیا‘ ان کو کچھ کمی بیشی اور ترامیم کے ساتھ قارئین کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں:
القدس سے مسلمانوں کی گہری نسبت ہے اور اس کے پس منظر میں چار اہم‘ مقدس اور تاریخی شخصیات ہیں۔ پہلی شخصیت اللہ تبارک وتعالیٰ کے جلیل القدر پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ہے۔ آپ علیہ السلام کی اولاد کا ایک حصہ بیت اللہ کی تولیت کے فریضے کو انجام دیتا رہا جبکہ حضرت اسحاق علیہ السلام کی اولاد‘ جس میں جلیل القدر انبیاء کرام مبعوث ہوئے‘ وہ بیت المقدس کے گرد و نواح میں اللہ کی توحید کی سربلندی کے فریضے کو سرانجام دیتی رہی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام ملتِ اسلامیہ کے لیے روحانی باپ کی حیثیت رکھتے ہیں‘ چنانچہ کلمۂ توحید کی سربلندی کیلئے جس مشن کی آبیاری آپ علیہ السلام کی اولاد نے کی‘ اس کی مناسبت سے مسلمانوں کو بیت المقدس کے علاقے سے گہری وابستگی ہے۔ دوسری عظیم شخصیت نبی کریمﷺ کی ذاتِ عالی قدر ہے۔ شبِ معراج نبی کریمﷺ کو بیت اللہ شریف سے صحنِ بیت المقدس میں پہنچایا گیا۔ جہاں حضور نبی کریمﷺ نے جمیع انبیاء کرام علیہم السلام کی امامت کرائی اور اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپﷺ کو یہ اعزاز دے کر کائنات کے سامنے اس بات کو ثابت کر دیا کہ آپﷺ فقط آنے والوں کے نہیں بلکہ جانے والوں کے بھی امام ہیں۔ نبی کریمﷺ کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے نبی القبلتین کا اعزاز عطا فرمایا۔ نبی کریمﷺ کی بیت المقدس میں امامت کی وجہ سے مسلمان بیت المقدس سے ایک روحانی نسبت محسوس کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ نبی کریمﷺ تحویلِ قبلہ سے قبل بیت المقدس کی طرف ہی رخ کر کے نماز ادا کیا کرتے تھے۔ چنانچہ یہ مسلمانوں کے لیے قبلۂ سابق کی حیثیت سے بھی ایک تقدس رکھتا ہے۔ تیسری شخصیت حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہے۔ آپؓ نے بیت المقدس کو اسلامی سلطنت کا حصہ بنایا‘ وہاں اسلام کے پرچم کو بلند کیا اور کلمۂ توحید کی نشر واشاعت کے لیے القدس کو ازسرِ نو اپنے مقصدِ حقیقی کی طرف پلٹایا۔ اس کے بعد عرصہ دراز تک القدس کا علاقہ مسلمانوں کے زیر انتظام رہا‘ یہاں تک کے جنگجو مسیحیوں نے بیت المقدس پر قبضہ کیا تو سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ نے صلیبی جنگوں میں جنگجو مسیحیوں کو شکست دے کر ایک مرتبہ پھر القدس کے علاقے کو سلطنتِ اسلامیہ میں شامل کر لیا۔
القدس سے مسلمانوں کی نسبت کے ساتھ ساتھ یہود کی چیرہ دستیوں کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔ یہود کی اسلام اور پیغمبر اسلامﷺ کے خلاف سازشوں کی ایک طویل تاریخ ہے جس کے نتیجے میں مسلمانوں کو یہودیوں کے خلاف صف آرا ہونا پڑا اور اس حوالے سے ایک عظیم الشان معرکے کی قیادت حضرت علی المرتضیٰؓ کو سونپی گئی۔ حضرت علیؓ نے خیبر کے قلعے پر جاندار حملہ کیا اور یہودی سورما مرحب کو قتل کر کے خیبر سے یہود کے تسلط کو ختم کیا۔ آج بھی عرب بڑے شوق سے ایک نغمہ پڑھتے ہیں جس کا مفہوم ہے ''یہودیو! خیبر کو یاد رکھو‘ رسول اللہﷺ کا لشکر ایک مرتبہ پھر آئے گا‘‘۔
دکھ اور تاسف کا مقام یہ ہے کہ 200 دنوں سے جاری جنگ کے دوران مظلوم فلسطینی بے سرو سامانی کے عالم میں صہیونی ریاست کے خلاف برسرِ پیکار ہیں اور ان کو اُمت کی جس درجہ تائید حاصل ہونا چاہیے تھی‘ وہ تاحال حاصل نہیں ہو سکی۔ تمام مسلم حکمرانوں کو اس حوالے سے مشترکہ لائحہ عمل اپنانا چاہیے اور وہ مسلم اقوام‘ جو عسکری اور سیاسی اعتبار سے مضبوط ہیں‘ اُن کو غزہ کے مظلوم مسلمانوں کی تائید اور نصرت کے لیے بھرپور عملی کردار ادا کرنا چاہیے۔ پاکستان بھی اُن ممالک میں شامل ہے جو اس حوالے سے اپنی آواز کو بطریق احسن بلند کر سکتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ صہیونیوں کی ظالمانہ کارروائیوں سے غزہ کے مظلوم مسلمانوں کو محفوظ فرمائے اور فلسطینیوں کیلئے بنیادی‘ انسانی‘ سیاسی اور مذہبی حقوق کے حصول کو آسان بنائے‘ آمین!