اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

صدرِ مملکت کا مشترکہ پارلیمانی اجلاس سے خطاب

پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے صدرِ مملکت کا خطاب ہماری جمہوری روایت اور ایک آئینی تقاضا ہے مگر سیاسی کشمکش اور تنائو کے منفی اثرات سے یہ اہم پارلیمانی جمہوری روایت بھی محفوظ نہیں۔ صدرِ مملکت کا پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب ایسا موقع ہوتا ہے کہ جس کیلئے غیر ملکی سفرا کو بھی شرکت کی دعوت دی جاتی ہے‘ اور گزشتہ روز بھی کئی سفیر بطور مہمان پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں شریک ہوئے مگر مشترکہ اجلاس کے آغاز کیساتھ ہی اپوزیشن کے اراکین نے شور شرابہ شروع کر دیا اور جیسے ہی سپیکر قومی اسمبلی نے صدرِ مملکت کو خطاب کیلئے مدعوکیا تو اپوزیشن نے نعرے بازی شروع کر دی۔ صدرِ مملکت کا عہدہ ایک سیاسی نہیں بلکہ ریاستی عہدہ ہے اور صدر ریاست کی سربراہی کرتا ہے۔ اس عہدے کا احترام ایک آئینی تقاضا ہے اور یہ کہ جمہوری روایات اور آئینی رسومات کی بجا آوری شایانِ شان طریقے سے ہو‘ مگر اس خطاب کے دوران ایوان میں جو مناظر دیکھنے کو ملے ان سے منتخب ایوانوں کے اراکین کی آئینی تقاضوں سے عدم واقفیت کا تاثر اجاگر ہوتا ہے۔ سیاسی اختلافات اپنی جگہ مگر قومی وقار سب پر مقدم ہے۔ کیا ہمارے سیاسی رہنمائوں نے کبھی غور کیا کہ ان کے اس رویے سے ملک و قوم کا کیسا تشخص اجاگر ہوتا ہے‘ اور جو غیر ملکی سفرا اس اہم موقع پر ایوان میں موجود تھے‘ انہوں نے اس سے کیا تاثر اخذ کیا؟ یہ رویہ یقینا جمہوری تقاضوں کے منافی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں یہ روایت جڑ پکڑتی جا رہی ہے کہ سیاسی مخالفت کو ذاتی عناد سمجھ لیا جاتا ہے اور مخالفین سے شائستگی اور آئینی و جمہوری طریقے سے اختلاف کرنے کے بجائے ان کی آواز دبانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے آپسی تنائو اس قدر بڑھ گیا ہے کہ سیاسی قیادت اپنے مسائل کو افہام و تفہیم اور بات چیت سے حل کرنے کے بجائے سڑکوں پر یا عدالتوں میں حل کرنے کی متمنی نظر آتی ہے۔ اس طرح شاید کچھ سیاسی مفادات تو پورے ہو جائیں مگر پارلیمان اور جمہوریت اس طرزِ عمل کے نتیجے میں کمزور ہوتی ہے۔ اگر صدرِ مملکت کے خطاب کے اہم نکات کی بات کی جائے تو صدر آصف علی زرداری نے بھی نئی پارلیمنٹ کے پہلے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ ملک کو حالیہ سیاسی بحران سے نکالنے کی ضرورت ہے‘ پولرائزیشن سے ہٹ کر عصرِ حاضر کی سیاست کی طرف بڑھنا ملکی ضرورت ہے۔ صدرِ مملکت کا یہ بھی کہنا تھا کہ پارلیمانی نظام پر اعتماد کیلئے دونوں ایوانوں کو مل کر کام کرنا ہو گا‘ جو مشکلات درپیش ہیں ان میں ہم اختلافات کو لے کر نہیں چل سکتے۔ اپوزیشن اور حکومت‘ دونوں کو یہ بات سمجھنا چاہیے کہ اختلافات اگر جمہوریت اور سیاست پر حاوی ہو جائیں تو آگے بڑھنے کا راستہ مسدود ہو جاتا ہے اور ہمارے ملکی مسائل اس وقت جس نہج پر پہنچ چکے ہیں‘ ان میں اختلافات کی سیاست کی کوئی گنجائش نہیں ہیں۔ ملکی مسائل حل کرنے کیلئے ہمیں یکسو ہو کر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ نئے انتخابات سے ایک امید جاگزیں ہوئی تھی کہ نئی پارلیمان ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے سیاسی افہام و تفہیم کو اپنائے گی اور اختلافات کو حاوی نہیں ہونے دے گی کہ جمہوریت کا مطلب ہی سب کو ساتھ لے کر چلنا ہے مگر اب تک کی پارلیمانی کارروائی عوام کی جمہوری عمل سے مزید لاتعلقی کا باعث بنی ہے۔ غالباً اسی لیے صدرِ مملکت نے اپنے خطاب میں پارلیمان کو اس کی ذمہ داری کی یاددہانی بھی کرائی کہ ایوان کو پارلیمانی عمل پر عوامی اعتماد بحال کرنے کیلئے قائدانہ کردار ادا کرنا ہو گا اور اس ایوان کے ذریعے قوم کی پائیدار اور بلاتعطل ترقی کی بنیاد رکھی جانی چاہیے۔ اگر پارلیمانی فورمز کو بھرپور انداز سے بروئے کار لایا جائے تو ملکی مسائل کے حل کی جانب بڑھنا ناممکن نہیں مگر یہ اسی وقت ہو گا جب سیاسی حدت اور اختلافات کو پارلیمانی کارروائی پر غالب نہ آنے دیا جائے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement