اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

برآمدی کنٹرول کا سیاسی ہتھیار

پاکستان نے اپنے بیلسٹک پروگرام کے ساتھ تعلق کی بنا پرچار بین الاقوامی کمپنیوں پر امریکی پابندیوں کے فیصلے کو مسترد کیا ہے۔امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے جن کمپنیوں کو ’’بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں اور ان کی ترسیل کے ذرائع کے پھیلاؤ ‘‘ کے الزام کے تحت پابندیوں کا نشانہ بنایا گیا ہے یہ کمپنیاں پاکستان سمیت کئی ممالک کو اپنی مصنوعات فروخت کرتی ہیں ؛چنانچہ ان کمپنیوں کیساتھ خاص پاکستان کے میزائل پروگرام کو منسلک کرکے اعتراض اٹھانا سمجھ سے بالاتر ہے۔ یہ امریکی اقدام اس لحاظ سے بھی باعثِ تعجب ہے کہ یہ سائنسی ترقی اور تحقیقات کے اداروںکو بھی شک و شبہے میں ڈالتا ہے ‘ مثال کے طور پر پاکستان کا سپیس سائنس کا ادارہ سپارکو جسے بعض آلات کی فراہمی کو جواز بنا کر امریکہ کی جانب سے دو چینی کمپنیوں پر پابندی کا اعلان کیا گیا ہے۔ تجارتی اداروں کی اس قسم کی فہرستیں مرتب کرنا پُر امن‘ دفاعی اور سائنسی منصوبوں اور اداروں کے بارے شبہات پیدا کرنے کے مترادف ہے ۔ یہ رویہ ایکسپورٹ کنٹرول کے سیاسی استعمال کی بھی نشاندہی کرتا ہے ‘ کیونکہ ایک طرف کچھ ممالک کیلئے جدید دفاعی ٹیکنالوجیز کیلئے لائسنسنگ تک کی شرائط کو ختم کر دیا جاتا ہے اور دوسری جانب پاکستان کے سائنسی مقاصد کیلئے آلات کی خریداری پر اس قسم کی موشگافیاں۔ یہ رویہ باعثِ حیرت نہیں بلکہ مضحکہ خیز ہے اور پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کیلئے سائنسی شعبوں میں آگے بڑھنے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کے مترادف ہے۔ دفاعی شعبے کے آلات اور ہتھیار ہوں یا حساس نوعیت کی ٹیکنالوجی اور مواد‘ پاکستان کی جانب سے عالمی سطح کے مانے ہوئے قواعد اور اپنی ذمہ داریوں سے سر مو انحراف کی کوئی واقعہ نہیں ملتا۔ اس خطے کی بات کریں تو اس سلسلے میں بھارت کے مقابلے میں پاکستان کاطرزِ عمل اور انتظامات کہیں مؤثر اور قابلِ بھروسا ہیں۔ اس کا تقابلی جائزہ یوں لیا جاسکتا ہے کہ پچھلے کچھ برسوں کے دوران بھارت میں یورینیم کی غیرقانونی خریدو فروخت کے واقعات سامنے آچکے اور یہ صورتحال بجا طور پر جوہری عدم پھیلاؤ کے بین الاقوامی ادارے کی تفتیش کی متقاضی ہے۔ یہ جوہری مواد کیونکر بکنے کیلئے باہر آیا‘ کہاں سے آیا ‘ اس میں کون لوگ ملوث تھے؟ ان سوالوں کے جواب ٹھوس اور جامع تحقیقات ہی سے سامنے آ سکتے ہیں ۔ پاکستان کی جانب سے ان واقعات پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا کیونکہ اس سے بھارت میں جوہری مواد کے کنٹرول‘ ریگولیٹری اور نفاذ کے ناقص طریقہ کار اور جوہری مواد کی بلیک مارکیٹ کے وجود کی نشاندہی ہوتی ہے۔پاکستان میں ایسی بے قاعدگی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ‘ مگر باوجود اسکے پاکستان کے پر اس قدربد ظنی کہ سائنسی تحقیق اور ترقی کے اداروں کی جانب سے آلات کی خریداری پر بھی شبہات کا اظہار۔ سپارکو جیسے خالصتاً سائنسی اور تحقیقی ادارے کی جانب سے راکٹ موٹرز اور دیگر متعلقہ آلات کی خریداری قطعی طور پریہ ثابت نہیں کرتی کہ ان آلات کی خریداری کا مقصد اسلحہ سازی ہے۔ سپارکو اس خطے میں خلائی تحقیق کے اولین اداروں میں سے ایک ہے اور 60 ء کی دہائی میں امریکی خلائی ادارے کے اشتراک سے جنوبی ایشیا میں راکٹ خلا میں بھیجنے والے اولین اداروں میں شامل تھا۔ جہاں تک پاکستان کے میزائل پروگرام کی ریگولیشن اورعالمی سطح پر قواعد اور ذمہ داریوں کا تعلق ہے تو پاکستان اس معاملے میں اپنی جملہ ذمہ داریوں سے بخوبی آگاہ ہے اور ہر صورت ان پر عمل درآمد یقینی بناتا ہے؛ چنانچہ برآمدی کنٹرول کے سیاسی استعمال کو مسترد کرنے میں پاکستان حق بجانب ہے ۔ برآمدی کنٹرول کا یہ من مانا اطلاق عالمی امن اور سکیورٹی کیلئے کسی طور مددگار نہیں‘ بلکہ اس کے طے شدہ مقاصد خطوں میں طاقت کے توازن کو بگاڑنے کا سبب بن سکتے ہیں۔ اقوام عالم کو اس سلسلے میں ذمہ دارانہ رویہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement